جب کوئی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے سامان بھی مہیا کر دیتا ہے۔ مشیتِ الٰہی نے جب اس سرزمین کو خدمتِ حدیث اور اشاعتِ سنت کے لئے پسند فرمایا تو ابتدا سے اس کے لئے مناسب و موزوں انتظام بھی فرما دیا۔ عہدِ خلافتِ راشدہ میں مسلمانوں نے اپنے قدم اس برصغیر کی سرزمین میں رکھے۔ حضرتِ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مسلمانوں کا ایک فوجی دستہ بمبئی کے ساحلی علاقے تھانہ میں پہنچا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک وفد سندھ کے کوائف و حالات معلوم کرنے کے لئے یہاں آیا۔ بعد میں مسلمان برابر اس برصغیر میں آتے جاتے رہے۔ رجال کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر قائدینِ لشکر، سپہ سالار اور ان کے کئی فوجی سپاہی رواہِ حدیث میں شمار ہوئے ہیں۔ جب خلیفہ ولید بن عبد الملکؒ کے عہد میں محمد بن قاسمؒ نے بلاد سندھ کی فتح کو ایک حد تک پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا تو ان کے ہمراہ بہت سے اتباع التابعین اس برصغیر بالخصوص سندھ میں داخل ہوئے۔
بعد میں بہت سے اور حضرات بھی بض سیاسی اور دینی وجوہ کی بنائ پر اس ملک میں آ بسے اور اپنے ساتھ علمِ حدیث بھی سرزمین ِ سندھ میں لائے۔
ان میں سے بعض نے تو حفظ و روایت میں شہرت پائی اور بعض نے تصنیف و تالیف میں نام پیدا کیا۔ اس مقدس گروہ کے نامور بزرگوں میں:۔
موسیٰ بن یعقوب، الثفقیؒ یزید بن ابی کبشہؒ المفضل بن المہلّبؒ ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ البصریؒ عمرو بن مسلم الباہلیؒ منصور بن حاتم نحویؒ ابراہیم بن محمد دیبلیؒ احمد بن عبد اللہ دیبلیؒ ابو العباس احمد بن محمد المنصوریؒ
خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آخر الذکر بزرگ منصورہ کے قاضی، مقتدر عالم دیں اور صاحبِ تالیف و تصنیف تھے اور بقول بعض تمسک بالحدیث اور عمل بالسنت کے باعث لوگ انہیں امام داؤد بن علی ظاہری کے مسلکِ فکر کے پیروکار تصور کرتے تھے۔
بایں ہمہ سر زمینِ پنجاب میں شیخ بہائ الدین زکریا ملتانیؒ (م ۶۶۶ھ) اور ان کے جانشیں شیخ جمال الدین محدثؒ اور شیخ رکن الدینؒ بن شیخ صدر الدینؒ ملتان میں اور سید جلال الدین بخاریؒ مخدوم جہانیاں (م ۷۸۵ھ) اُچ میں حدیث و سنت کی شمعیں جلائے نظر آتے ہیں۔ ان بزرگوں نے اپنے اپنے حلقوں میں درسِ حدیث کو جاری رکھ کر سنت نبوی اور درس و تدریسِ حدیث کو زندہ رکھنے کی بڑی کوشش کی۔ شیخ بہاؤ الدین زکریاؒ نے تو مسنون دعاؤں کا ایک مجموعہ تالیف فرما کر ادعیۂ ماثورہ کو رواج دیا۔
۔حضرت مخدوم الملک سیدناشرف الدین یحیٰ منیری کی ذات بھی برصغیر میں اس حوالے سے نمایاں مقام رکھتی ہے آپکی محدثانہ حیثیت کے متعلق ڈاکٹر اسحاق ڈار نے اختصار کے ساتھ اچھاتبصرہ کیاہے۔مناسب ہوگاکہ اسے یہاں نقل کردیاجائے۔
''شرف الدین منیری علاقہ بہار کے ایک ممتاز محدث تھے۔ وہ حدیث سے متعلق تمام علوم مثلاًتاویل الحدیث،علم رجال الحدیث،اورعلم مصطلحات الحدیث پر پورا عبور رکھتے تھے۔انہوں نے اپنے مکتوبات اورتصوف کی کتابوں میں احادیث کثرت سے نقل کی ہیں۔اورصرف اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ بہت سے موقعوں پر انہوں نے علم حدیث کے مختلف پہلوئوں مثلاًروایت بالمعنی اورشرط الراوی وغیرہ پر اپنی تصانیف میں طویل بحثیں کی ہیں اورصحیحین ،مسند ابویعلی الموصلی ،شرح المصابیح اورمشارق الانور کے حوالے بھی دیئے ہیں۔قیاس کیاجاتاہے کہ امام نووی (متوفی672)کی شرح صحیح مسلم کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا اورانہوں نے اس کاغائر مطالعہ کیاتھا۔انہیں احادیث نہ صرف زبانی یاد تھیں بلکہ وہ ان کے مطابق عمل بھی کرتے تھے ۔چنانچہ انوہں نے محض اس وجہ سے خرپزہ کبھی نہ کھایا کہ انہیںیہ معلوم نہ ہوسکا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خرپزہ کس طرح کھایاتھا۔ان اوصاف کے علاوہ شرف الدین منیری قرآن وحدیث دونوں کی متصوفانہ تعلیم پر بھی سند مانے جاتے تھے''۔(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کا حصہ)یہ چیز بہار کیلئے سرمایہ امتیاز اورلائق فخر ہے اوریہ کہاجائے توبیجانہ ہوگا کہ سارے ہندوستان میں صحیحین کی تعلیم سب سے پہلے بہار کے ایک خانقاہ میں دی گئی ۔ہوسکتاہے کہ اس میں گجرات کا استثناء کردیاجائے۔کیونکہ وہاں ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے فضلاء اورعلماء عرب جاتے رہتے تھے اور اورعلم حدیث سے بھی اس خطہ کو اشتغال زیادہ تھا۔چنانچہ علی متقی کی کنزالعمال اورطاہر فتنی کی لغت حدیث پر لکھی گئی کتابیں ہندوستان میں علم حدیث کی خدمت کا ایک شاندار باب ہیں۔
ڈاکٹر اسحاق بجاطورپر لکھتے ہیں کہ
''کہاجاتاہے کہ ان کو نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان میں صحیحین کی تعلیم شروع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔''(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کاحصہ)
اوربھی کئی بزرگانِ دین حدیث و سنت کی شمعیں روشن کرنے کے لئے اس برصغیر میں تشریف لائے۔ لیکن انہوں نے احمد آباد کے علاقے کو اپنی مساعی کا مرکز بنایا۔
ان بزرگوں میں مندرجہ ذیل حضرات کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذِکر ہیں:۔
شیخ عبد المعطی بن حسن بن عبد اللہ باکثیر المکیؒ (متوفی احمد آباد ۹۸۹ھ) شیخ احمد بن بدر الدین المصریؒ (متوفی احمد آباد ۹۹۲ھ)
شیخ محمد بن احمد بن علی الفاکہی حنبلیؒ (متوفی احمد آباد ۹۹۲ھ) شیخ محمد بن محمد عبد الرحمٰن المالکی المصریؒ (متوفی احمد آباد ۹۱۹ھ)
شیخ رفیع الدین چشتی شیرازیؒ (متوفی اکبر آباد ۹۵۴ھ) خواجہ میر کلاں ہرویؒ (متوفی اکبر آباد ۹۸۱ھ)
ان کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ہے محدثین کے اسماء کی جنھوں نے بر صغیر میں بے مثال خدمات انجام دیئے بعدہ برصغیر پاک وہند کے محدثین کے زعیم، حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہؓ بن عبد الرحیم العمری دہلویؒ (متوفی ۱۱۷۶) کا دور شروع ہوا۔ شاہ صاحبؒ موصوف نے حجاز پہنچ کراستاذ الاساتذہ اور شیخ الشیوخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم الکروی المدنیؒ اور دیگر ائمۂ حدیث سے علمِ حدیث حاصل کیا۔ وطن واپس آکر دہلی میں مسندِ تدریس پر روفق افروزہوئے اور علم حدیث کی نشر و اشاعت شب و روز کوشاں رہے۔ درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی خدمتِ حدیث بجا لائے۔ کتاب و سنت کے نور کو عام کر دیا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں فقہی امور میں تطبیق پیدا کی اور آج کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے چرچے انہی کے دم قدم کا نتیجہ ہیں
No comments:
Post a Comment