محبت رسول کریم صلی اللہ وآلہ وسلم اور اعمال
(پیرآف اوگالی شریف, Khushab)
احادیث کے حوالے سے محبتِ رسول علیہ الصلوۃ والتسلیم اور بظاہر کم اعمال جبکہ دوسری طرف ظاہری اعمال کے ڈھیر لیکن دل محبت و تعظیم رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے خالی ہونے کا تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
صحیح بخاری ، جلد 5 کی حدیث نمبر 5811، اور صحیح بخاری جلد6، کی احادیث نمبر 6532 اور 6534 بھی قابلِ توجہ ہیں کہ جب ذولخویصرہ تمیمی نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حیا نہ کرتے ہوئے، بےادبی سے حضور :saw: کو معاذ اللہ ۔۔۔ “اللہ سے ڈر کر عدل کرنے “ کی نصیحت کی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پشت کرکے چلا گیا۔ حدیث پاک میں اسکا حلیہ بھی بیان کیا گیا کہ تہمد پنڈلیوں سے بھی اونچا تھا۔ داڑھی گھنی اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھی۔ (اکثر دوستوں کے مشاہدے میں اس حلیہ سے ہی ایک خاص طبقے کی نشاندہی ہوجاتی ہے وہ بدبخت جسکا دل محبت وادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی تھا اسکی اس گستاخی پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ کرام نے اس کو قتل کرنے کی اجازت چاہی (اگر حضرت عمرفاروق اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنھما کی جگہ آج کے ظاہری اعمال والے ملاں ہوتے تو کہتے کہ بات تو اس بدبخت نے قرآن و حدیث کے منافی نہیں کی کہ “اللہ سے ڈرو اور عدل کرو“ اور اسکے دفاع و مدح سرائی میں نعرے لگانے شروع کردیتے۔ لیکن قربان جائیں وہ حضرت عمر فاروق و حضرت خالد بن ولید تھے کہ جن کے رگ و پے میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رچ بس گیا تھا اور ان کے دلوں میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت و عقیدت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ تھی جسے آج کے ملاں بےکار چیز سمجھتے ہیں۔
بہرحال حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص حکمت کے تحت دونوں صحابیوں کو روک دیا ۔ البتہ اس موقع پر جو ارشاد فرمایا وہ لائقِ توجہ ہے۔ فرمایاکہ اسکے ٹولے کے کچھ لوگ ہوںگے جو تلاوتِ قرآن اتنی کثرت سے کریں گے کہ تم انکے سامنے اپنی تلاوت قرآن کو کم جانو گے۔ وہ نمازیں اتنی زیادہ پڑھیں گے کہ تم اپنی نمازیں انکے سامنے کم جانو گے یعنی ایسے ٹولے کے لوگوں کی بظاہر عبادتیں و اعمال صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے بھی زیادہ ہوں گے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براہ راست صحابہ کرام کو فرمایا تھا کہ “تم اپنی نمازیں، اپنی عبادتیں اپنی تلاوتیں انکی عبادتوں اور تلاوتوں کے سامنے کم سمجھو گےلیکن وہ ایمان سے ایسے خارج ہوچکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے گذر کر آگے نکل جاتا ہے۔ یعنی انکا ایمان ضائع ہوچکا ہوگا “ثابت یہ ہوا کہ اگر دل محبت و ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ہو تو بظاہر اعمال کے ڈھیر بھی انسان کو اجر وثواب تو درکنار “ایمان“ کے دروازے میں ہی داخل نہیں ہونے دیتے۔ اور ایمان نہ ہوا تو بندہ بے ایمان رہا۔ اور بےایمان شخص کے اعمال کس کام کے ؟
بخاری شریف ہی کی ایک اور حدیث پاک دیکھئیے ۔صحیح بخاری ، جلد 6،حدیث نمبر 6389۔
ایک صحابی ہیں ۔ جو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت یوں کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی پریشان ہوتے تو وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مزاحیہ بات کردیتے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر مسکراہٹ پھیل جاتی ۔ ظاہر ہے ہنسانے کا یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت کا آئینہ دار ہے کیونکہ انسان جس سے محبت کرتا ہے فطرتی بات ہے کہ اسے خوش دیکھنا اور خوش رکھنا چاہتا ہے۔یہی صحابی فطرتی، بشری کمزوری کے باعث شراب حرام ہوچکنے کے بعد بھی شراب پی لیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر حد جاری کی اور سزا دی۔ دوبارہ شراب پی پھر حد جاری کی گئی اسطرح بار بار سزا ملنے پر بھی شخصی و بشری کمزوری کے باعث شراب پی لیتے۔ اس پر کسی صحابی نے کہا “اس شخص پر اللہ کی لعنت کہ بار بار پکڑ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے“ یعنی بار بار شراب پیتا ہے گناہ کبیرہ کرتا ہے اور پھر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سزا کے لیے پیش کیا جاتا ہے“ یہ سن کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ اس موقع پر فرمایا۔ وہ بھی قابل توجہ ہے فرمایا“اس پر لعنت نہ کرو کیونکہ یہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے“یعنی وہ شخص بظاہر عمل میں بہت کمزور تھا۔ بلکہ گناہگار تھا۔ لیکن اپنے دل میں محبتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھنے کے باعث نہ صرف لعنت سے بچا لیا گیا بلکہ زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے محبت کی گواہی بھی دے دی۔ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعویدار تو لاکھوں کروڑوں ہیں لیکن زبانِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے “محبت “ پر گواہی تو کسی کسی کو ہی نصیب ہوئی ہوگی۔ اور وہ بظاہر کمزور اعمال والے صحابی کو بھی حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی محبت کی گواہی دے کر اسے لعنت سے بچا لیا۔
احادیث کے موازنے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ محبت و ادبِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصلِ ایمان ہے۔ مومن ہونے کی شرط ہی محبتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جیسا کہ متفق علیہ حدیث سے ثابت ہے
بخاری شریف، 1 / 14، الرقم : 15، ومسلم شریف، 1 / 67، الرقم : 44.)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘
جہاں تک نعت و مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ہے تو یہ عمل بھی قلبی محبت و تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کو جس سے جتنی محبت ہوتی ہے فطرتی بات ہے کہ وہ اسکا اتنا ہی ذکر کرتا ہے۔ اور جتنا اپنے محبوب کا ذکر کیا جائے محب کے دل کو سکون و اطمینان ملتا ہے اسی لیے اللہ تعالٰی بھی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ “الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“ ترجمہ آگاہ ہوجاؤ کہ دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہے۔ “ جس کو کسی سے محبت ہی نہ ہوگی وہ کسی دوسرے کا ذکر کیوں کرے گا؟ اس لیے نعت و مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انکار کرنے والے بھی اپنی جگہ سچے ہیں کہ ان کے دل میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رمق ہی نہیں ہے تو وہ ذکرِ و نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیوں آئیں گے۔ یہ سعادت تو اللہ تعالٰی نے امہات المومنین سے لے کر ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، اولیائے عظام اور سچے غلامانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہے۔ ذولخویصرہ تمیمی اور اسکے ٹولے جیسے گستاخوں کے حصے میں محبتِ و مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت کبھی نہیں آ سکتی۔ پھر دوسری طرف کا منظرکہ دوسری طرف ایک ایسا شخص جو بظاہر کلمہ گو ہے، اعمال کا ڈھیر اسکے پاس ہے، مگر اسکا دل محبت و ادبِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حیائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ہے۔ اور اسکے ٹولے کے لوگ بظاہر اعمال کے ڈھیر اتنے زیادہ لگائیں گے اور اسکے ٹولے کے لوگ اسی گستاخ کے مخصوص حلیے میں آج ظاہری اعمال کے ڈھیر لگا بھی رہے ہیں اور فقط ظاہری اعمال پر ہی اصرار بھی کررہے ہیں اور ہر بات کو گھما پھرا کر محبت و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہٹا کر فقط ظاہری اعمال کی طرف لے جاتے ہیں اس ٹولے کے اعمال بظاہر اتنے زیادہ بھی ہوجائیں کہ خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم بھی اپنے اعمال کو کم سمجھیں ۔ لیکن بنا محبت و ادبِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے اعمال کے ڈھیر انہی کچھ فائدہ نہ پہنچا سکیں گے اور زبانِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ ایمان سے ہی خارج قرار دے دیے جا چکے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی کئی فرموداتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کہ جنکی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہلبیت اطہار اور بالخصوص حسنین کریمین رضوان اللہ علیھما کی محبت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اپنے خالق و مالک حق تعالٰی سے محبت ہے۔ اور حسنین کریمین رضوان اللہ علیھما سے بغض و عداوت درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض و عداوت ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےبغض و عداوت سیدھی اللہ رب العزت سے بغض و عداوت قرار پاتی ہے۔ اور دشمنِ حسین رضی اللہ عنہ ، دشمنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرا، اور دشمنِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدھا دشمنِ الہی ٹھہرا۔۔۔ کیونکہ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالٰی نے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایذا و اذیت دینے کو خود اللہ تعالٰی کو اذیت دینا قرار دیا ہے۔ تو ایسے بدبخت دشمنانِ اہلبیت و دشمنانِ رسول و دشمنانِ الہی کے دفاع میں قلم اٹھانے والے ، زبانیں کھولنے والے اور صفحات کالے کرنے والے خود ایمان کے کس درجے میں ہوں گے؟
کتنے خوش بخت ہیں وہ امتی جو اپنے دلوں کو محبوب خدا علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت سے لبریز رکھتے ہیں اور محبت اس قدر شدید ہوجاتی ہے کہ اپنی جان، اپنے والدین اور ساری دنیا سے بڑھ کر دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا سمندر موجزن ہوجاتا ہے۔ اسی شدید محبت سے سرشار ایمان کامل کا درجہ حاصل کر کے ہر ہر عمل میں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کی عبادت کرتے ہیں اور عقیدے میں قرآن کا حکم “من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ رہتا ہے۔ “صلو علیہ وسلمو تسلیما“ کے حکم کی پیروی مین شب و روز محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ انکی زبانیں ہمہ وقت درودوسلام بر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز رہتی ہیں اورقلب و نظر میں اداحادیثِ صحیحہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایمان ، عمل پر مقدم ہے۔ بےایمان کا کوئی عمل اللہ تعالٰی کے اجر نہیں پائے گا۔ اور ایمان کے لیے اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اشد ضروری بلکہ امام مسلم کے مطابق واجب ہے۔جب تک ایمان ہی دل میں داخل نہ ہو ۔عمل کا اوراسکے اجر کا کیا جواز ؟ اگر فقط کلمہ پڑھ لینا ہی “ایمان“ ہوتا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی کو حضورنبی اکرم ایمان کی تکمیل کے لیے اپنی جان سے بڑھ کر دل میں “محبتِ رسول “ بسانے کا حکم نہ دیتے۔
No comments:
Post a Comment