Friday, January 26, 2018

توسل بالذات

توسل بالذات : حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  کے چچا کے وسیلہ سے دعا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ دورِ فاروقی میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا ، بارش کی سخت ضرورت تھی اور لوگ جاں بلب تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے صحابہ کرام اور دیگر حضرات کو ساتھ لیا اور بارگاہِ ربوبیت میں دستِ سوال دراز کیا۔ دعا میں حضرت عباس رضی اﷲعنہ (حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا) کو وسیلہ بنایا اور مالک الملک کی بارگاہ میں عرض کیا ۔ اللھم انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون۔ اے اﷲ !ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب فرماتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، ہمیں سیراب فرما ! حضرت انس فرماتے ہیں کہ انہیں سیراب کیا گیا ۔ (بخاری ، جلد اول کتاب الاستقاء حدیث نمبر:956) (اب کہہ دو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ضعیف حدیثیں لکھتے تھے) صرف یہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے ویسا ہی سلوک کیا کرتے تھے، جیسا ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے ۔ پس اے لوگو! تم بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طریقہ کو اپناتے ہوئے آپ سے ویسا ہی سلوک کرو ! واتخذوہ وسبیلۃ الی اللّٰہ ۔ اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کا وسیلہ اﷲ کی بارگاہ میں پیش کرو ! (فتح الباری) دیکھ رہے ہیں آپ ! کس قدر محبت تھی حضرت عمر رضی اﷲعنہ کو محبوب دو جہاں ، تاجدارِ مرسلاں، رسول انس وجاں صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے کہ ان کے چچا کا وسیلہ پیش کر رہے ہیں ۔ معلوم ہوا نبیوں علیہم السّلام کے علاوہ دوسرے بزرگوں کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے ۔(تیسیر الباری شرح بخاری غیر مقلد وہابی علامہ نواب وحید الزّمان)

اس حدیث مبارک سے ثابت ہوا کہ طلب حاجات میں اللہ کے نیک بندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔ منکرین وسیلہ کی طرف سے اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث سے زندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ثابت ہوتا ہے مُردوں کا نہیں۔ اس لئے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زندہ تھے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو اسی حدیث سے فوت شدہ بزرگوں کے توسل کی نفی ہوتی ہے۔ کیوں کہ حدیث میں مذکور ہے کہ اے اللہ ! ہم تیرےنبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے۔ اب تیرے نبی کے چچا حضرت عباس کا وسیلہ پکڑتے ہیں صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کی زندگی میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا وسیلہ پکڑتے تھے۔ اگر کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس کا وسیلہ جائز ہوتا تو صحابہ کرام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد بھی حضور ہی سے توسل کرتے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بجائے حضرت عباس سے توسل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس سے توسل جائز نہیں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حدیث مبارک میں نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں توسل مذکور ہے۔ جس میں زندہ اور مردہ کاکوئی تفاوت نہیں اور نہ حدیث کا کوئی لفظ فوت شدہ بزرگوں سے توسل کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔ رہا یہ امر کہ صحابہ کرام  نے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کا وسیلہ یہاں کیوں نہ پکڑا تو جواباً عرض ہے کہ کسی حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وسیلہ بنانے کی نفی نہیں بلکہ کثرت احادیث سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے وصال کے بعد بھی سرکار سے توسل کو جائز سمجھتے تھے۔ اس باب میں البتہ یہاں ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے۔ وہ یہ کہ جب زندہ اور فوت شدہ دونوں قسم کے بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خاص موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کی بجائے حضرت عباس سے توسل کیوں کیا تو اس کے جواب میں حدیث اعرابی جو شفاء السقام میں منقول ہے رفع شبہات کے لئے کافی ہے جس میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں وہ اعرابی سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے مزار مقدس پر حاضر ہوااور سرکار سے توسل کیا وہ اعرابی اپنے گناہوں کی مغفرت کی حاجت لے کر مزار پر انوار پر حاضر ہوا تھا ۔ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے توسل کی برکت سے اس کی حاجت پوری ہوئی اور قبر انور سے آواز آئی ’’ان اللّٰہ قد غفرلک‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ نے تیرے گناہوں کو معاف فرمادیا نیز مشکوٰۃ شریف ص۵۴۵ باب الکرامات میں بروایت دارمی ایک حدیث مرقوم ہے۔ وہو ہذا : عَنْ اَبِی الجَوْزَاء قَالَ قُحِطَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ قَحْطًا شَدِیْداً فَشَکَوْا اِلٰی عَائِشَۃَ قَالَتْ اُنْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوْ ا مِنْہُ کُویً اِلَی السَّمَائِ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ فَفَعَلُوْا فَمُطِرُوْا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعَشَبُ وَ سَمَنَتِ الْاِبِلُ حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشحم فَسُمِّیَ عَامَ الْفَتَقِ رَوَاہ الدَارمی۔
ترجمہ : حضرت ابوالجوزاء سے روایت ہے کہ ایک سال اہلِ مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس شکایت لائے۔ انہوں نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے مزار اقدس کو دیکھو اور مزار اقدس سے ایک روشن دان آسمان کی طرف کھول دو۔ یہاں تک کہ مزار انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ ہو۔ اہل مدینہ نے ایسے ہی کیا۔ تو خوب بارش ہوئی حتیٰ کہ جانوروں کا چارہ بھی بکثرت پیدا ہوا اور اونٹ چربی سے خوب موٹے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چربی سے پھٹے جاتے ہیں تو اس سال کا نام عام الفتق رکھ دیا گیا۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے ۔

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کی حیاتِ ظاہری میں بھی قحط سالی اور خشک سالی میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے توسل کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصالِ اقدس کے بعد بھی مزارِ انور سے توسل کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے توسل کی برکت سے خلق اللہ اسی طرح خوشحال ہوئی، جس طرح پہلے ہوتی تھی۔ اس مبارک حدیث سے آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن اور واضح ہو گیا کہ صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے توسل کرتے تھے اور دونوں توسلوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ دیکھئے سرکار کی ظاہری حیات میں بھی بارانِ رحمت کی طلب اور قحط سالی دور ہونے کے لئے توسل کیا گیا اور وصال کے بعد بھی قبر انور سے خشک سالی دور ہونے اور بارانِ رحمت نازل ہونے کے لئے توسل کیا گیا۔ اب معترض کا یہ کہنا کہ فوت شدہ بزرگوں سے توسل جائز نہیں۔ نیز یہ کہ صحابہ کرام بعد از وصال حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے توسل نہ کرتے تھے کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ یہاں حضرت عباس کی ذات سے توسل نہیں۔ یہ توسل بھی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  ہی سے ہے۔ کیوں کہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’اِنَّا نتوسل الیک بِعَمِّ نَبِیِّکَ‘‘ اے اللہ! ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں۔ عم مضاف ہے نبی کی طرف یعنی حضرت عباس سے جو توسل کیا جا رہا ہے وہ اس نسبت اور اضافت کی بنا پر ہے جو انہیں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے ساتھ ہے۔ اس نسبت سے قطع نظر کر کے توسل نہیں۔ جب توسل کا دارومدار اس نسبت و اضافت پر ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ توسل حضرت عباس سے نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قبل الوصال حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے بلا واسطہ توسل ہوتا تھا اور یہ توسل بالواسطہ ہے۔
اور بالواسطہ توسل میں حکمت یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام ہمیشہ بلا واسطہ توسل کرتے اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کی ذاتِ گرامی کا بغیر واسطہ کے وسیلہ اختیار کرتے رہتے۔ نیز سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے کسی غلام کے واسطہ سے کبھی توسل نہ کرتے تو منکرین وسیلہ کہہ دیتے کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے سوا کسی سے توسل جائز ہی نہیں۔ اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام کبھی تو کسی غیر نبی کا وسیلہ پکڑتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس کے واسطہ سے توسل کر کے اس دعویٰ پر دلیل قائم کر دی کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  سے بلا واسطہ توسل جائز ہے، اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلاموں کے واسطہ سے بھی بلاشبہ توسل جائز اور صحیح ہے۔ اب قیامت تک ہر ولی اللہ اور بزرگ کے ساتھ وسیلہ پکڑنے کا جواز ظاہر ہو گیا ۔ مختصر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل فرما کر توسل کو آگے بڑھایا اور وسیلہ کو عام کیا اور اس امر پر نص فرما دی کہ یہ توسل حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم  کے ساتھ نسبت اور اضافت پر مبنی ہے۔ لہٰذا قیامت تک اللہ تعالیٰ کا جو نیک بندہ بھی اس نسبت اور اضافت کے شرف سے مشرف ہو، اس کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنا شرعاً جائز اور درست ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment