آپ نے جماعت اہلسنت کے حقیقی تعارف کے سلسلہ میں جہاں سے بحث اٹھائی ہے، یہ رخ بڑا تفصیل طلب ہے۔ اہلسنت و جماعت کے مقابل دیگر جماعتوں کی فہرست طویل ہے اور ہر باطل فرقے سے اختلاف کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ اس لئے ہر فرقے کے پیش نظر ہی اہلسنت کے امتیازی عقائد سپرد قلم کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہی عقیدے میں ایک فرقے سے ہمارا شدید اختلاف ہے جبکہ عین اسی عقیدے میں دوسری جماعت سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ مثال کے طور پر اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ قرآن عظیم مکمل ہے، لیکن رافضی فرقہ کا عقیدہ ہے، قرآن مجید محفوظ نہیں بلکہ اس میں سے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں یا الفاظ امیر المومنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یا دیگر صحابہ کرام نے نکال دیئے۔ یہ قرآن مجید کا انکار ہے جو بالاجماع کفر ہے۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ ائمہ اطہار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں، یہ بھی کفر ہے ، حالانکہ ان مسائل میں دیوبندی مکتب فکر سے اہلسنت کا کوئی اختلاف نہیں۔
اسلام کے جو بنیادی عقائد ہیں وہی دراصل اہلسنت و جماعت کے بنیادی عقائد ہیں، پھر جیسے جیسے حالات بدلتے رہے ، نت نئے فرقے پیدا ہوتے رہے، علمائے اہلسنت ان کا رد کرتے رہے۔ اہلسنت و جماعت اسلام کے بنیادی عقائد اور ضروریات دین پر ہمیشہ کاربند رہے۔ لیکن حالات کے مدوجزر اور نت نئے فرقوں کے پیش نظر ان کے امتیازی و تشخصات بدلتے رہے۔ موسوعۃ للادیان والمذاہب میں اہلسنت و جماعت کی تعریف حسب ذیل الفاظ میں کی گئی ہے۔
اہل السنۃ والجماعۃ ہم المتمسکون سنۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم التارکون بدع المبتدعین بعدہ، الثابتون مع اہل الجماعۃ، فاصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم الجماعۃ الذین قال فیہم صلی اﷲ علیہ وسلم (ما انا علیہ واصحابی علیہ الیوم)
یعنی اہل سنت و جماعت وہی ہیں جو رسول اﷲﷺ کی سنت پر عمل پیرا رہے، بدمذہبوں کی گمراہیوں سے کنارہ کش رہے اور جماعت سے وابستہ رہے اور جماعت سے مراد صحابہ کرام ہیں جن کے بارے میں سرکار نے فرمایا ’’ماانا علیہ واصحابی‘‘
اہلسنت وجماعت کا لفظ اگرچہ احادیث سے ماخوذ ہے لیکن بدمذہبوں کے مقابلے میں یہ اصطلاح عہد صحابہ کے بعد شروع ہوئی، بعد میں اسلامی افکار ونظریات کے دو مکاتب فکر وجود میں آئے، اشاعرہ اور ماتریدیہ لیکن دونوں فروعی اختلافات کے باوجود اصول میں متفق تھے۔ اس لئے دونوں اہل حق اور اہلسنت و جماعت کے نام سے موسوم رہے۔ عہد تابعین میں احادیث کے ردوقبول میں بھی اہلسنت و جماعت اور بدمذہبوں کے درمیان فرق کیا جاتا تھا۔ حضڑت امام مسلم اپنی صحیح کے مقدمے میں امام محمد بن سیرین تابعی سے باسناد خود روایت کرتے ہیں۔
’’پہلے اسناد کے تعلق سے تفتیش نہیں ہوتی تھی، لیکن جب فتنہ برپا ہوا تو روایت کرتے وقت کہتے اپنے راویوں کے بارے میں بتائو تو اگر اہلسنت و جماعت دیکھتے تو قبول کرلیتے اور بدمذہب دیکھتے تو رد کردیتے‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم مطبوعہ مطبع انصاری دہلی ص 11)
حضرت امام عظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اہلسنت و جماعت کی شناخت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ نے فرمایا تفضیل الشیخین و حب الختین و مسح الخفین
یعنی حضرات امیر المومنین ابوبکر صدیق اور امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو تمام صحابہ سے بزرگ جاننا، امیر المومنین عثمان غنی اور امیر المومنین علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے محبت رکھنا اور موزوں پر مسح کرنا۔ مسلک حنفی یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنے سے بہتر پیروں کا دھونا ہے لیکن جب بدمذہبوں نے سختی کے ساتھ انکار کیا تو مسح کرنا اہلسنت و جماعت کی علامت اور دیگر جماعتوں کے مقابلے میں یہ مسئلہ اہلسنت و جماعت کے لئے وجہ امتیاز بن گیا۔ واضح رہے کہ حضرت امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اہلسنت و جماعت کی جو علامت بتائی یہ کوفے کے حالات کے پیش نظر تھی، کیونکہ اس وقت وہاں رافضیوں کی کثرت تھی، اس لئے وہی علامتیں بیان فرمائیں جن سے ان کا رد ہو، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اہلسنت و جماعت ہونے کے لئے یہی علامتیں کافی ہیں، علامت شے میںپائی جاتی ہے، شے لازم علامت نہیں ہوتی۔
ماضی قریب کے عظیم محقق و مفسر صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آباد علیہ الرحمہ نے اہلسنت و جماعت کی جو تعریف رقم فرمائی ہے، وہ عہد حاضر میں اپنے میزان پر ہے۔
سنی وہ ہے جو ’’ماانا علیہ واصحابی‘‘ کا مصداق ہو، یہ وہ لوگ ہیں جو خلفائے راشدین و ائمہ دین، مسلم مشائخ طریقت اور متاخر علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ملک العلماء حضرت بحرالعلوم مولانا عبدالعلی فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مفتی ارشاد حسین رام پوری اور حضرت مفتی شاہ احمد رضا بریلوی کے مسلک پر ہوں (رحمہم اﷲ تعالیٰ (الفقیہ، امرت سر 21 اگست 1925 ص 9
Saturday, January 27, 2018
جماعت اہلسنّت بریلوی کا تعارف
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment