Tuesday, January 30, 2018

#خطباءاورشعراءکے#نذرانہ#کاشرعی حکم

#خطباءاورشعراءکے#نذرانہ#کاشرعی حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب قبلہ!  آج کل جو شعراء و خطباء کے بارے میں پوسٹر گھوم رہا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ برائے کرم مطلع فرمائیں ۔۔۔۔

السائل ۔۔۔افتخار سدا، گوال پوکھر، اتردیناج پور

الجواب بعون الملک الوھاب

آج کل خطابت اور نعت خوانی نے تجارت کی شکل اختیار کرلی ہے، اگر بحیثیت تجارت اس کا شرعی جائزہ لیا جائے تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں اس کی دوصورتیں نکل سکتی ہیں ۔
ایک تو یہ کہ خطباء اور شعراء اپنے اوقات کی تجارت کرسکتے ہیں جوکہ جائز ہے۔اور جب یہ تجارت جائز ہے تو خطباء وشعراء کے اوقات "مبیع" اور نذرانہ اس کا "ثمن" ٹھہرا۔ اور شرعا مجہول ثمن پر تجارت درست نہیں لھذا نذرانہ متعین کرنا ضروری ہوگا ۔ اور جب نذرانہ ان کے اوقات کی قیمت ٹھہرا تو انہیں اس کی کمی یا زیادتی کا شرعا پورا پورا حق حاصل ہے ۔

اس صورت میں جس طرح نذرانہ متعین کرنا ضروری ہوگا جوکہ ثمن ہے اسی طرح اوقات کی تعیین بھی ضروری ہوگی(کیونکہ یہ مبیع ہے اور مبیع کا مجہول ہونا بھی درست نہیں) خواہ گھنٹہ کی شکل میں ہو یا کسی دوسری شکل میں۔
خطباء اور شعراء کے لئے متعین کردہ وقت سے ایک منٹ پہلے لوٹنا درست نہ ہوگا، نیز کمیٹی والوں کو یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ ان اوقات میں ان سے تقریر ونعت کے علاوہ بھی جو کام چاہیں لےسکتے ہیں، ان کے لئے نکیر کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

دوسری صورت یہ ہے کہ بجائے اوقات کے نفس خطابت و نعت خوانی کی تجارت ہو، اس صورت میں صرف ان تقریروں کی تجارت درست ہوگی جو خالص اصلاحِ عقائد و اعمال پر مبنی ہوں۔ نعت خوانی کی تجارت درست نہیں ہوگی، کیونکہ تقاریر کی تجارت کو ضرورت کا حاجت کے دامن میں پناہ مل جائے گی مگر نعت خوانی کو نہیں مل سکتی ۔ (اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے تونعت خوانی کے نذرانہ پر بڑی وعید شدید کا ذکرفرمایا ہے )

لھذا پہلی صورت میں خطابت و نعت خوانی دونوں کا نذرانہ متعین کرنا درست بلکہ لازم و ضروری ہوگا اور دوسری صورت میں صرف خطابت کا نذرانہ درست ہوگا نعت خوانی کا نہیں۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
فداءالمصطفی قادری مصباحی
طالب دعا
سید سبطین رضا s/o SSR

Monday, January 29, 2018

آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی خطا نہیں

آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی خطا نہیں

وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ (البقرہ آیت ۳۵)

اور اس درخت کے قریب نہ جانا کہ حدسے بڑھنے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔

آدم و حوا علیہما السلام دونوں اس درخت کے قریب گئے اور اللہ تعالیٰ کے ممانعت کے باوجود انہوں نے اسے کھالیا ایسی صورت میں آیت کریمہ کا بظاہر مفاد یہی ہوگا کہ آدم و حوا علیہما السلام (معاذاللہ) دونوں ظالم ہوگئے، مگر یاد رہے کہ آدم علیہ السلام اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے پہلے خلیفہ اور اس کے نبی ہوئے، اللہ کا نبی اور اللہ کا خلیفہ کبھی ظالم نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی بندہ حضرت آدم علیہ السلام کو ظالم کہے گا تو وہ خود ظالم و کافر قرار پائے گا۔

ظلم کے معنی: ’’وضع الشئی فی غیر موضعہ‘‘ یعنی کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کی بجائے کسی دوسری جگہ رکھ دینا۔ (تفسیر قرطبی ج۱ ص۳۰۹)

قرآن کریم میں  شرک کے لیے بھی لفظ ظلم وارد ہے حق تلفی اور حاکم کے فرمانِ حق کی نافرمانی کو بھی ظلم کہتے ہیں، بلکہ ہر معصیت وگناہ ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے کو جس کام کا حکم دے اس کی خلاف ورزی یقیناً گناہ ہے لیکن اس کا قانون یہ ہے کہ وہ بندے کو اسی کام کا حکم دیتا ہے جو بندے کے اختیار میں ہو، دیکھیے قرآن کریم نے فرمایا:

لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ ۲۸۶)

یعنی اللہ تعالیٰ کسی کی طاقت و اختیار سے باہر اسے کوئی حکم نہیں دیتا۔

ظاہر ہے  کہ بھول کر کسی کام کا کرنا یا نہ کرنا بندے کے اختیار میں نہیں، ایسی صورت میں ’’ولا تقربا ھذہ الشجرۃ‘‘ کی نہی کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ تم بھول کر بھی اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔

اب اس بات کا فیصلہ کہ حضرت آدم علیہ السلام قصداً اس درخت کے قریب گئے یا بھول کر بلا قصد؟ خود قرآن مجید  سے ہی سن لیجیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَقَدْ عَھِدْنَا اِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ آیت ۱۱۵)

’’اور بے شک ہم نے اس سے پہلے آدم علیہ السلام سے درخت کے قریب نہ جانے کا عہد لیا تو وہ بھول گئے اور ہم نے ان کا کوئی قصد نہ پایا۔‘‘

ثابت ہوا کہ آدم علیہ السلام سے کسی قسم کا کوئی ظلم سرزد نہیں ہوا نہ انہوں نے کوئی شرک کیا، نہ ان سے کوئی حق تلفی ہوئی، نہ ان سے کسی معصیت اور گناہ کا صدور ہوا۔ جیسے روزے دار کا روزے کی حالت میں بھول کر کھانا پینا گناہ نہیں اسی طرح آدم علیہ السلام کا اس درخت سے بھول کر کھالینا بھی گناہ نہیں۔ یقیناً وہ گناہوں سے پاک اور نبی ہونے کی وجہ سے معصوم ہیں۔ شیطان ان سے جس ظاہری لغزش کے صادر ہونے کا سبب بنا وہ حقیقتاً معصیت نہیں بلکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں متعلق ہیں، اس طرح حضرت آدم علیہ السلام کا ربنا ظلمنا انفسنا.....الآیۃ..... کہنا بھی ان کے ظالم ہونے کی دلیل نہیں بلکہ ان کے کمالِ عبدیت اور رب کریم کی بارگاہ میں انتہائی تواضع اور انکساری پر مبنی ہے۔ (تبیان ص۱۳۷)

مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ

مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ:

خلافت راشدہ عادلہ کے بعد مسلمانوں پر دنیا کی محبت غالب آگئی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں راسخ نہ رہی، دنیا کی محبت کی وجہ سے موت سے ان کے دلوں میں کراہت پیدا ہوگئی اور اللہ کی راہ میں جان دینے کا جذبہ کامل نہ رہا، جس کی وجہ سے امت مسلمہ بدحالی کا شکار ہوگئی، غیروں پر اس کو غالب رہنے کی نعمت سے محروم کردیا گیا۔

سننِ ابی داؤد اور بیہقی کی حدیث میں امت مسلمہ کی اس بدحالی کا ذکر نہایت ہی المناک صورت میں وارد ہے حضرت ثوبان سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اے مسلمانو! قریب ہے کہ کافروں کی جماعتیں تم پر حملہ آور ہونے کے لیے اس طرح ایک دوسرے کو بلائیں گی جیسے کسی پیالے میں کھانا رکھا ہو اور اسے کھانے کے لیے ہر طرف سے لوگوں کو بلایا جائے، صحابہ نے عرض کیا کہ حضور! کیا اس وقت ہم قلیل ہوں گے؟ فرمایا: نہیں، تم اس وقت بہت کثیر تعداد میں ہو گے لیکن تم اس وقت سیلاب کے جھاگ اور اس کے خس و خاشاک کی طرح ہوگے (یعنی ایمانی قوت و شجاعت  تم میں باقی نہ رہے گی) اللہ تعالیٰ تمہاری ہیبت اور تمہارا رعب دشمن کے دل سے نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں بزدلی اور کمزوری پیدا کردے گا صحابہ کرام نے عرض کیا، حضور بزدلی اور کمزوری کا سبب کیا ہوگا؟ فرمایا: ’’حب الدنیا وکراھۃ الموت‘‘ دنیا کی محبت اور موت کی کراہت۔

ظاہر ہے کہ جو شخص دنیا سے محبت کرے گا موت اسے ناپسند ہوگی، عرصہ دراز سے مسلمان اسی بدحالی میں مبتلا ہیں اور موجودہ دور میں یہ بدحالی ایسی خوفناک صورت اختیار کرگئی ہے کہ اس کے نتائج کے تصور سے بھی دل لرز جاتا ہے۔

خیال رہے کہ ہر دور میں نیک لوگ، اصحابِ علم و تقویٰ رہے ہیں، انہی کے دم قدم سے نظامِ دنیا چل رہا ہے اور دنیا کی بقا ہے۔ لیکن اکثریت جب گناہوں میں مبتلا ہوجاتی ہے تو کم تعداد میں نیک لوگ بھی ہلاکت کی زد میں آجاتے ہیں، اگرچہ وہ ہلاکت ان کے لیے عذاب نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے:

’’اذا انزل اللہ بقوم عذابا اصاب العذاب من کان فیھم ثم بعثوا علی اعمالھم‘‘ (بخاری ج۲ ص۱۰۵۳)

یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب بھیجتا ہے تو نیک و بد سبھی اس میں ہلاک ہو جاتے ہیں پھر جب وہ اُٹھائے جائیں گے تو ہر ایک کا اٹھایا جانا اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق ہوگا۔

مسلمان اگر اپنی عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی تمنا یہ ہے کہ وہ کافروں  پر غالب آجائیں تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ تمام مسلمان مجموعی طور پر کامل ایمان رکھیں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر کسی اور چیز کو ترجیح نہ دیں، اسی محبت اور کامل ایمان کی وجہ سے جذبہ جہاد اور شوق شہادت پیدا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اپنی اس عظمتِ دورِ رفتہ کو حاصل نہ کرلیں جو صحابہ کرام کے دور میں کفار پر مسلمانوں کو حاصل تھی کہ مسلمانوں کی ہیبت سے کفار کے اعضاء پر کپکپی طاری ہوتی ۔ (از تبیان)

جھوٹی تعریف کاوبال

*------درس قدوسی--------*
*--جھوٹی تعریف کا وبال--*
آج کل *جھوٹی* اور *مبالغہ آمیز* تعریف کا سلسلہ زوروں پر چل رہاہے، جو جس کو چاہتا اور مانتا ہے، اسکی تعریف و توصیف میں ،دن ورات ایک کئے رہتا ہے، اس میں وہ *جھوٹ* کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور *مبالغہ* تو عام سی بات ہے -
ایسا کرنے والااپنی اس *حرکت قبیحہ* کو کوئ *عیب* بھی نہیں سمجھتا بلکہ اسے *خوبی* سمجھتا ہے اور اسے *بہادری* کا نام دیتا ہے- 
*حالانکہ* یہ فعل نہ اسکے حق میں بہتر ہے اور نہ اس کے  *ممدوح* کے حق میں، ---------
*جھوٹی تعریف*کرنا حرام، بد کام  ہے  ، اس سے اجتناب و احتراز بہر حال  واجب ہے، اور *مبالغہ*-  تو یہ دونوں کے لئے  باعث *ہلاکت وبربادی*  ہے، *اسکے لئے بھی اور اسکے  ممدوح کے لئے بھی،*
*حدیث پاک* میں ہے *معلم کائنات* صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا
*"مبالغہ کے ساتھ مدح کرنے والوں کو جب تم دیکھو تو انکے منہ میں خاک ڈالو"*( مسلم شریف)
*دوسری حدیث* میں ہے کہ *"نبئ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کو سنا کہ دوسرے کی تعریف میں مبالغہ کرتا ہے ،ارشاد فرمایا "تم نے اسے ہلاک کردیا ،اسکی پیٹھ توڑ دی"*(بخاری شریف)
اسی طرح سامنے تعریف کرنے سے بھی *سرکار* علیہ السلام نے *منع فرمایا* اور اسکو اسکے لئے باعث نقصان و زیاں بتایا ہے *حدیث پاک* میں ہے
*"سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کی تعریف کی،حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا "تجھے ہلاکت ہو تو نے بھائ کی گردن کاٹ دی"*(بخاری و مسلم)
مذکور *احادیث* سے یہ ظاہر ہوا کہ کسی کی جھوٹی تعریف کرنا جائز نہیں، اور نہ تعریف میں مبالغہ کرنا جائز ہے ،
جو لوگ اس فعل بد میں ملوث ہیں *وہ لوگ اپنے ممدوح کو فائدہ نہیں، نقصان پہنچا رہے ہیں اور اپنا بھی نقصان کر رہے ہیں*
آج کل ایک نیا *سسٹم* شروع ہوا ہیکہ *پیر صاحب* کی زندگی میں انکی کرامتوں پر مشتمل کتابیں منظر عام پر لائ جارہی ہیں،اور *تماشہ* یہ کہ ایسی کتابوں کی *رسم اجرا* خود ان کے ہی ہاتھوں انجام دی جاتی ہے ، ان کے مقام و مرتبہ کے بیان میں صرف مبالغہ نہیں ،کھلے عام غلط بیانی اور کذب گوئ کا ارتکاب کیا جارہا ہے،
حد تو یہ ہیکہ جھوٹی شان کے اظہار کے لئےبعض باتوں کو وصال یافتہ بزرگوں کی طرف غلط منسوب کرنے میں بھی یہ لوگ نہیں شرماتے  --
  ایسا صرف پیر صاحب کی خوشنودی حاصل نے کے لئے کیا جاتا ہے، لیکن ان کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ روز حشر اس بزرگ کو اپنا منہ دکھانا ہوگا، جن کی طرف آج یہ جھوٹ باندھ رہے ہیں، کل  ان کو انکے غضب کا شکار بھی بننا پڑیگا،تو پھر تمہارا حشر کیا ہوگا،؟!(العیاذ باللہ )
ایسے افراد یا تو چاپلوس ہوتے ہیں یا نادان دوست کہ وہ اپنے اس عمل سے پیرصاحب کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور انکی جھوٹی تعریف کرکے   ان کو مغرور بنارہے ہیں،
*بسا اوقات* ان کاموں کی انجام دہی میں پیر صاحب بھی شریک رہتے ہیں یا کم ازکم انکی رضا اور  حمایت ضرور رہتی ہے ،اس طرح  *وہ خود اپنی ہلاکت کے ذمہ دار بن  رہے ہیں* جیسا کہ اوپر حدیث مذکور ہوئ کہ *سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کو سنا دوسرے کی تعریف میں مبالغہ کرتا ہے ،اس پر حضور نے فرمایا "تم نے اسے ہلاک کردیا ،اسکی پیٹھ توڑ دی*(بخاری)
صرف مبالغہ آرائ پر یہ جزرو توبیخ ہے،  تو پھر غلط بیانی اور کذب گوئ پر کتنی شدید وعید ہوگی ،اللہ کی پناہ !
*جو لوگ اس بلا میں کسی نہ کسی نہج سےمبتلا ہیں، وہ ہوش کا ناخن لیں، دل میں خشیت الہی پیدا کریں اور اپنے کئے پر شرمسار ہوکر بارگاہ یزدانی میں تائب ہوں*
میرا پیغام محبت ہے یہانتک پہنچے
      
*اسی طرح* ان دنوں ہمارے مذہبی اسٹیج پر بھی یہ کام بڑی ڈھٹائ کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے، *ناظم اسٹیج* سے لیکر *خطبا وشعرا* تک، اس عادت بد کے شکار ہیں (الا ماشاء اللہ )
کچھ *نا عاقبت مریدین* بھی ہیں جو اپنے *پیروں* کی مدح و ستائش میں جھوٹ اور مبالغہ آرائ کرتے ہوئے کوئ جھجھک محسوس نہیں کرتے ،بلکہ اسکو *عقیدت* سے تعبیر کرتے ہیں ،
جبکہ *یہ عقیدت نہیں،سراسر مصیبت ہے ،دونوں کے لئے پیر کے لئے بھی اور مرید کے لئے بھی،*
*دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی* ،
جیساکہ درج بالا *حدیثوں* سے ظاہر و باہر ہے ،
رب کریم ہمیں اس بلا سے محفوظ رکہے اور احکام خداوندی پر عمل کی توفیق دے آمین بجاہ *النبی الکریم* علیہ الصلوۃ والتسلیم
*سید آل رسول* حبیبی ہاشمی *------سجادہ نشین------*
*خانقاہ قدوسیہ* بھدرک، اڈیشہ ،انڈیا------

*درس نظامی کی درجہ اولی سے دوره حدیث تک کی کتب اور شروحات کی لنک پیشِ خدمت ہے*

*درس نظامی کی درجہ اولی سے دوره حدیث تک کی کتب اور شروحات کی لنک پیشِ خدمت ہے*
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*درجہ اولیٰ*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/al-aula-1st-year/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*درجہ ثانیہ*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/al-sania-2nd-year/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*درجہ ثالثہ*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/al-salesa-3rd-year/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*درجہ رابعہ*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/al-rabia-4th-year/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*درجہ خامسہ*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/al-khamesa-5th-year/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*درجہ سادسہ*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/al-sadesa-6th-year/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*موقوف علیہ نصابی کتب*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/maoqoof-alai-7th-year/maoqoof-alai-text-books/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*موقوف علیہ عربی شروحات*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/maoqoof-alai-7th-year/maoqoof-alai-arabic-shuroohat/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*موقوف علیہ اردو شروحات*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/maoqoof-alai-7th-year/maoqoof-alai-urdu-shuroohat/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*دورہ حدیث نصابی کتب*
http://www.besturdubooks.net/dora-e-hadith-text-books/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*دورہ حدیث عربی شروحات*
http://www.besturdubooks.net/dora-e-hadith-arabic-shuroohat/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*دورہ حدیث اردو شروحات*
http://www.besturdubooks.net/dora-e-hadith-urdu-shuroohat/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*منطق و فلسفہ*
http://www.besturdubooks.net/mantiq-o-falsafa/
*ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*

*متفرق کتب*
http://www.besturdubooks.net/dars-e-nizami/mutafarriq/

ہندوستان میں اشاعت حدیث

جب کوئی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے سامان بھی مہیا کر دیتا ہے۔ مشیتِ الٰہی نے جب اس سرزمین کو خدمتِ حدیث اور اشاعتِ سنت کے لئے پسند فرمایا تو ابتدا سے اس کے لئے مناسب و موزوں انتظام بھی فرما دیا۔ عہدِ خلافتِ راشدہ میں مسلمانوں نے اپنے قدم اس برصغیر کی سرزمین میں رکھے۔ حضرتِ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مسلمانوں کا ایک فوجی دستہ بمبئی کے ساحلی علاقے تھانہ میں پہنچا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک وفد سندھ کے کوائف و حالات معلوم کرنے کے لئے یہاں آیا۔ بعد میں مسلمان برابر اس برصغیر میں آتے جاتے رہے۔ رجال کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر قائدینِ لشکر، سپہ سالار اور ان کے کئی فوجی سپاہی رواہِ حدیث میں شمار ہوئے ہیں۔ جب خلیفہ ولید بن عبد الملکؒ کے عہد میں محمد بن قاسمؒ نے بلاد سندھ کی فتح کو ایک حد تک پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا تو ان کے ہمراہ بہت سے اتباع التابعین اس برصغیر بالخصوص سندھ میں داخل ہوئے۔
بعد میں بہت سے اور حضرات بھی بض سیاسی اور دینی وجوہ کی بنائ پر اس ملک میں آ بسے اور اپنے ساتھ علمِ حدیث بھی سرزمین ِ سندھ میں لائے۔
ان میں سے بعض نے تو حفظ و روایت میں شہرت پائی اور بعض نے تصنیف و تالیف میں نام پیدا کیا۔ اس مقدس گروہ کے نامور بزرگوں میں:۔
موسیٰ بن یعقوب، الثفقیؒ                       یزید بن ابی کبشہؒ      المفضل بن المہلّبؒ      ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ البصریؒ                        عمرو بن مسلم الباہلیؒ منصور بن حاتم نحویؒ                      ابراہیم بن محمد دیبلیؒ    احمد بن عبد اللہ دیبلیؒ   ابو العباس احمد بن محمد المنصوریؒ
خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آخر الذکر بزرگ منصورہ کے قاضی، مقتدر عالم دیں اور صاحبِ تالیف و تصنیف تھے اور بقول بعض تمسک بالحدیث اور عمل بالسنت کے باعث لوگ انہیں امام داؤد بن علی ظاہری کے مسلکِ فکر کے پیروکار تصور کرتے تھے۔

بایں ہمہ سر زمینِ پنجاب میں شیخ بہائ الدین زکریا ملتانیؒ (م ۶۶۶ھ) اور ان کے جانشیں شیخ جمال الدین محدثؒ اور شیخ رکن الدینؒ بن شیخ صدر الدینؒ ملتان میں اور سید جلال الدین بخاریؒ مخدوم جہانیاں (م ۷۸۵ھ) اُچ میں حدیث و سنت کی شمعیں جلائے نظر آتے ہیں۔ ان بزرگوں نے اپنے اپنے حلقوں میں درسِ حدیث کو جاری رکھ کر سنت نبوی اور درس و تدریسِ حدیث کو زندہ رکھنے کی بڑی کوشش کی۔ شیخ بہاؤ الدین زکریاؒ نے تو مسنون دعاؤں کا ایک مجموعہ تالیف فرما کر ادعیۂ ماثورہ کو رواج دیا۔

۔حضرت مخدوم الملک سیدناشرف الدین یحیٰ منیری کی ذات بھی برصغیر میں اس حوالے سے نمایاں مقام رکھتی  ہے آپکی محدثانہ حیثیت کے متعلق ڈاکٹر اسحاق ڈار نے اختصار کے ساتھ اچھاتبصرہ کیاہے۔مناسب ہوگاکہ اسے یہاں نقل کردیاجائے۔
''شرف الدین منیری علاقہ بہار کے ایک ممتاز محدث تھے۔ وہ حدیث سے متعلق تمام علوم مثلاًتاویل الحدیث،علم رجال الحدیث،اورعلم مصطلحات الحدیث پر پورا عبور رکھتے تھے۔انہوں نے اپنے مکتوبات اورتصوف کی کتابوں میں احادیث کثرت سے نقل کی ہیں۔اورصرف اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ بہت سے موقعوں پر انہوں نے علم حدیث کے مختلف پہلوئوں مثلاًروایت بالمعنی اورشرط الراوی وغیرہ پر اپنی تصانیف میں طویل بحثیں کی ہیں اورصحیحین ،مسند ابویعلی الموصلی ،شرح المصابیح اورمشارق الانور کے حوالے بھی دیئے ہیں۔قیاس کیاجاتاہے کہ امام نووی (متوفی672)کی شرح صحیح مسلم کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا اورانہوں نے اس کاغائر مطالعہ کیاتھا۔انہیں احادیث نہ صرف زبانی یاد تھیں بلکہ وہ ان کے مطابق عمل بھی کرتے تھے ۔چنانچہ انوہں نے محض اس وجہ سے خرپزہ کبھی نہ کھایا کہ انہیںیہ معلوم نہ ہوسکا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خرپزہ کس طرح کھایاتھا۔ان اوصاف کے علاوہ شرف الدین منیری قرآن وحدیث دونوں کی متصوفانہ تعلیم پر بھی سند مانے جاتے تھے''۔(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کا حصہ)یہ چیز بہار کیلئے سرمایہ امتیاز اورلائق فخر ہے اوریہ کہاجائے توبیجانہ ہوگا کہ سارے ہندوستان میں صحیحین کی تعلیم سب سے پہلے بہار کے ایک خانقاہ میں دی گئی ۔ہوسکتاہے کہ اس میں گجرات کا استثناء کردیاجائے۔کیونکہ وہاں ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے فضلاء اورعلماء عرب جاتے رہتے تھے اور اورعلم حدیث سے بھی اس خطہ کو اشتغال زیادہ تھا۔چنانچہ علی متقی کی کنزالعمال اورطاہر فتنی کی لغت حدیث پر لکھی گئی کتابیں ہندوستان میں علم حدیث کی خدمت کا ایک شاندار باب ہیں۔
ڈاکٹر اسحاق بجاطورپر لکھتے ہیں کہ
''کہاجاتاہے کہ ان کو نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان میں صحیحین کی تعلیم شروع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔''(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کاحصہ)

اوربھی کئی بزرگانِ دین حدیث و سنت کی شمعیں روشن کرنے کے لئے اس برصغیر میں تشریف لائے۔ لیکن انہوں نے احمد آباد  کے علاقے کو اپنی مساعی کا مرکز بنایا۔
ان بزرگوں میں مندرجہ ذیل حضرات کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذِکر ہیں:۔
شیخ عبد المعطی بن حسن بن عبد اللہ باکثیر المکیؒ (متوفی احمد آباد ۹۸۹ھ)          شیخ احمد بن بدر الدین المصریؒ (متوفی احمد آباد ۹۹۲ھ)
شیخ محمد بن احمد بن علی الفاکہی حنبلیؒ (متوفی احمد آباد ۹۹۲ھ)                      شیخ محمد بن محمد عبد الرحمٰن المالکی المصریؒ (متوفی احمد آباد ۹۱۹ھ)
شیخ رفیع الدین چشتی شیرازیؒ (متوفی اکبر آباد ۹۵۴ھ)                خواجہ میر کلاں ہرویؒ (متوفی اکبر آباد ۹۸۱ھ)

ان کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ہے محدثین کے اسماء کی جنھوں نے بر صغیر میں بے مثال خدمات انجام دیئے  بعدہ برصغیر پاک وہند کے محدثین کے زعیم، حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہؓ بن عبد الرحیم العمری دہلویؒ (متوفی ۱۱۷۶؁) کا دور شروع ہوا۔ شاہ صاحبؒ موصوف نے حجاز پہنچ کراستاذ الاساتذہ اور شیخ الشیوخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم الکروی المدنیؒ اور دیگر ائمۂ حدیث سے علمِ حدیث حاصل کیا۔ وطن واپس آکر دہلی میں مسندِ تدریس پر روفق افروزہوئے اور علم حدیث کی نشر و اشاعت شب و روز کوشاں رہے۔  درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی خدمتِ حدیث بجا لائے۔ کتاب و سنت کے نور کو عام کر دیا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں فقہی امور میں تطبیق پیدا کی اور آج کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے چرچے انہی کے دم قدم کا نتیجہ ہیں

اے رب مصطفیٰ اور خدائے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم

اے رب مصطفیٰ اور خدائے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اے رب مصطفیٰ اور خدائے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : ہمیں بھی زیارتِ نبوی اور دیدارِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی دولت بے دار سے ہمکنار فرما ، اور بار بار فرما ۔ کریم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : بہت جی چاہتا ہے کہ کبھی اُس چہرے کو دیکھیں جسے تو نے والضحیٰ کہا ، اور اُن زلفوں کی زیارت کریں جنھیں تو نے واللیل کہہ کے یاد فرمایا ۔ مولا میرے مولا : وہ چہرہ کتنا عظیم چہرہ ہے کہ جب آسمان کی طرف اُٹھتا ہے تو وحی الٰہی اس کی ناز برداری کے لیئے اُتر آتی ہے : قَدْ نَریٰ تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ ۔ اے میرے کریم پروردگار : اس چہرے کو دکھا کر ہمارے تاریک تن من کو درخشاں اور نور بداماں فرما دے ۔ آمین بجاہ نبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ۔ اللّٰہُمَّ إنِّي آمَنْتُ بِسَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَلَمْ أرَہٗ فَلاَ تَحْرِمْنِي فِي الْجِنَانِ رُؤیَتَہٗ ، وَارْزُقْنِي صُحْبَتَہٗ وَتَوَفَّنِي عَلیٰ مِلَّتِہ وَاسْقِنِي مِنْ حَوْضِہ مَشْرَبًا رَوِیًّا سَائِغًا ھَنِیْئًا لاَّ نَظْمَأ أبَدًا إنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ ۔ فقیرِ مدینہ فیض احمد چشتی