#خطباءاورشعراءکے#نذرانہ#کاشرعی حکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی صاحب قبلہ! آج کل جو شعراء و خطباء کے بارے میں پوسٹر گھوم رہا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ برائے کرم مطلع فرمائیں ۔۔۔۔
السائل ۔۔۔افتخار سدا، گوال پوکھر، اتردیناج پور
الجواب بعون الملک الوھاب
آج کل خطابت اور نعت خوانی نے تجارت کی شکل اختیار کرلی ہے، اگر بحیثیت تجارت اس کا شرعی جائزہ لیا جائے تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں اس کی دوصورتیں نکل سکتی ہیں ۔
ایک تو یہ کہ خطباء اور شعراء اپنے اوقات کی تجارت کرسکتے ہیں جوکہ جائز ہے۔اور جب یہ تجارت جائز ہے تو خطباء وشعراء کے اوقات "مبیع" اور نذرانہ اس کا "ثمن" ٹھہرا۔ اور شرعا مجہول ثمن پر تجارت درست نہیں لھذا نذرانہ متعین کرنا ضروری ہوگا ۔ اور جب نذرانہ ان کے اوقات کی قیمت ٹھہرا تو انہیں اس کی کمی یا زیادتی کا شرعا پورا پورا حق حاصل ہے ۔
اس صورت میں جس طرح نذرانہ متعین کرنا ضروری ہوگا جوکہ ثمن ہے اسی طرح اوقات کی تعیین بھی ضروری ہوگی(کیونکہ یہ مبیع ہے اور مبیع کا مجہول ہونا بھی درست نہیں) خواہ گھنٹہ کی شکل میں ہو یا کسی دوسری شکل میں۔
خطباء اور شعراء کے لئے متعین کردہ وقت سے ایک منٹ پہلے لوٹنا درست نہ ہوگا، نیز کمیٹی والوں کو یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ ان اوقات میں ان سے تقریر ونعت کے علاوہ بھی جو کام چاہیں لےسکتے ہیں، ان کے لئے نکیر کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ بجائے اوقات کے نفس خطابت و نعت خوانی کی تجارت ہو، اس صورت میں صرف ان تقریروں کی تجارت درست ہوگی جو خالص اصلاحِ عقائد و اعمال پر مبنی ہوں۔ نعت خوانی کی تجارت درست نہیں ہوگی، کیونکہ تقاریر کی تجارت کو ضرورت کا حاجت کے دامن میں پناہ مل جائے گی مگر نعت خوانی کو نہیں مل سکتی ۔ (اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے تونعت خوانی کے نذرانہ پر بڑی وعید شدید کا ذکرفرمایا ہے )
لھذا پہلی صورت میں خطابت و نعت خوانی دونوں کا نذرانہ متعین کرنا درست بلکہ لازم و ضروری ہوگا اور دوسری صورت میں صرف خطابت کا نذرانہ درست ہوگا نعت خوانی کا نہیں۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
فداءالمصطفی قادری مصباحی
طالب دعا
سید سبطین رضا s/o SSR