امام احمد رضا خان پر الزام کہ آپ کو خواجہ سے عقیدت نہ تھی
المرسل محمد خلیق الزماں شمسی رضوی
بزرگوں کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ کوئی بھی بزرگ شخصیت حاسدوں کے حسد سے محفوظ نہیںرہ سکی۔ جو جتنی ہی بلندی پر فائز ہوا، اتنی ہی اس کی مخالفت کرنے والے بھی دنیا میں نظر آئے۔ اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹوں نے ہی بڑوں سے حسد کیا۔ کبھی کسی بڑی شخصیت نے کسی چھوٹے سے نہ حسد کیا، نہ ہی ان سے نفرت کی بلکہ ان کا شیوہ چھوٹوں کو نوازتا تھا۔
ان ہی عظیم شخصیت میں سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اﷲ عنہ کی ذات برکات بھی ہے جنہوںنے اپنی پوری زندگی احیائے قرآن و سنت، تجدید دین، ترویج حنفیت اور عظمت مصطفیﷺ کا علم بلند فرمایا۔ اولیائے اسلام کی قدرومنزلت، وقار حرمت کا چراغ لوگوں کے دلوں میں روشن کیا۔ تحقیق مسائل کی راہیں روشن فرمائیں، لیکن سابقہ اشخاص کی طرح آپ کی ذات بھی حاسدوں کے حسد سے محفوظ نہ رہ سکی۔
آپ سے عناد رکھنے والے اور حسد کی آگ میںجلنے والے دو قسم کے افراد ہیں۔ ایک قسم حاسدین کی وہ ہے جو اہل سنت و جماعت کے خلاف عقائد رکھنے والے ہیں۔ مثلا وہابی، دیوبندی، قادیانی، جماعت اسلامی غیر مقلد وغیرہ۔ یہ تمام فرقے آپس میں اگرچہ مختلف نظریات اور متضاد اعتقاد کے پیروکار ہیں تاہم جب مخالفت رضا کی بات آتی ہے تو ’’الکفر ملتہ واحد‘‘ کے تحت متحد و متفق نظر آتے ہیں۔ چونکہ اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ نے تمام گمراہ باطل فرقوں کی تردید فرمائی ہے لہذا ان کی مخالفت ہونا لازمی امر ہے۔
باطل فرقے کا کوئی بھی علمبردار تحقیقات رضا، تحریرات رضا اور تصنیفات رضا کے سامنے آنے کی جرات اور مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا اور حضرت امام کی بے داغ شخصیت و عبقری ہستی میں کہیںکوئی نقص و عیب نہیں پاتا تو لامحالہ الزام تراشی کی راہ اپناتا ہے تاکہ حضرت امام کے فتاویٰ و تصانیف کی وقعت کو کم کیا جاسکے اور انہوں نے جو بدمذہبوں کے خلاف فتاویٰ جاری فرمائے ہیں، انہیں بے اعتبار ثابت کیا جاسکے۔
حاسدین کی دوسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو خیر سے مسلمان ہیں مگر خدمت دین، ترویج سنت، اشاعت مذہب، تحفظ عقائد حقہ اور فروغ علم و عمل پر اپنی ذاتی منفعت اور مصنوعی تقویٰ و طہارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ چونکہ حضرت امام نے تجدید دین کا جو زبردست کام کیا، اس کے سبب ہر طرف ان کی عظمت کے چراغ جل اٹھے۔ چہار سو ان ہی کا بول بالا ہونے لگا اور دنیائے علم و حکمت میں ان ہی کا سکہ رائج ہوگیا۔
پھر تو جو لوگ کوئی دینی کام کئے بغیر ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا نعرہ لگا کر جھوٹی شہرت اور دولت و ثروت کما رہے تھے۔ انہوں نے اپنے قدموں تلے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس کی۔ مریدوں پر گرفت ڈھیلی پڑنے لگی تو ایسے حالات میں عوام کے دلوں میں اعلیٰ حضرت کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کرنے اور فکروتحقیق، علم و حکمت کے دھارے سے قوم مسلم کو الگ کرنے کے لئے حضرت امام پر الزام تراشی کرنے لگے اور ان کی اتباع میں ان کے ان پڑھ مریدین بھی وہی راگ الاپنے لگے۔
چنانچہ جس طرح حاسدین کی جماعت دو حصوں میںبٹی ہے، ٹھیک اسی طرح الزامات بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن کی تشہیر کے لئے کتب و رسائل، اخبار و جرائد اور قرطاس و قلم کا سہارا لیا جاتا ہے اور دوسرے وہ ہیں جن کو پھیلانے کے لئے خفیہ نشستیں، خصوصی مجالس، مخصوص ملاقاتیں اور سرگوشی کے لئے ہلکی اور دبی زبانیں استعمال ہوتی ہیں۔ پہلی قسم کے
الزامات تراشنے والے باطل فرقے کے لوگ ہیں جبکہ دوسری قسم کی الزام تراشی والے اہلسنت ہی کے لوگ ہیں۔
اعلیٰ حضرت پر الزام
اہل سنت و جماعت کے بعض حاسدین سرکار اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کو حضور سیدنا سرکار غریب نواز رضی اﷲ عنہ سے عقیدت نہیں تھی۔ اسی لئے آپ نے کبھی اجمیر شریف کا سفر نہیں فرمایا اور نہ اپنی تصنیفات میں کہیں ان کا ذکر جمیل فرمایا۔
چونکہ بات یہ سرگوشی کے انداز میں کہی جاتی ہے۔ اس لئے اثر انداز ہوتی ہے اور اس سے کہی جاتی ہے جو تصنیفات رضا کے مطالعے سے قاصر ہے لہذا وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ اس الزام کی بنیاد جھوٹ کی زمین پر ہے اور اس کا تعلق حقیقت سے بالکل ہی نہیں ہے۔ کیونکہ متعدد شواہد اس بات کی وضاحت کررہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ نے متعدد بار اجمیر القدس کا سفرفرمایا اور آپ کو حضور غریب نواز سے بے پناہ عقیدت تھی۔
[3/6, 10:43 AM] محمد شمسی رضوی: اجمیر شریف میں اعلیٰ حضرت کا خطاب
اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ نے متعدد بار اجمیر شریف القدس کا سفر کیا۔ عرس میں شرکت فرمائی اور بارگاہ غریب نواز میں حاضری کی سعادت سے فیضیاب ہوئے۔ ایام عرس میں سجادہ نشین کی طرف سے ہر سال شاہجہانی مسجد میں جلسہ کا اہتمام ہوتا۔ باہر سے آئے ہوئے خطبائ، مقررین، سلطان الہند کے فضائل و مناقب بیان فرماتے۔
اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ میدان قرطاس و قلم کے شہ سوار تھے۔ فن خطابت و تقریر سے کوئی بہ
ت زیادہ لگائو نہیں تھا لیکن مخصوص مواقع پر علم و حکمت کے دھارے کو فن تقریر کی سمت بھی موڑ دیتے تو ایک بار پھر سامعین یہ کہنے پر مجبورہوجاتے۔
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
لہذا آپ جب بھی اجمیر القدس تشریف لے گئے، سجادہ نشین نے کرسی خطابت پر جلوہ گر ہونے کی درخواست کی اور آپ نے سلطان الہند کی غلامی کا ثبوت دیا۔ گھنٹوں تقریر فرمائی اور حضور غریب نواز کے فضائل و مناقب، سیرت و سوانح پر خصوصی خطاب فرمایا۔علامہ نور احمد قادری پاکستانی لکھتے ہیں۔
’’اعلیٰ حضرت کا اکثر سلطان الہند خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری کی خانقاہ میں عرس غریب نواز کے موقع پر وعظ ہوا کرتا تھا اور اس وعظ کا اہتمام خود خانقاہ شریف کے ’’دیوان‘‘ صاحب کیا کرتے تھے جس میں علمائ، فضلائ، دور دور سے آکر وعظ سننے کے لئے شرکت کرتے،بعض دفعہ دکن حکمران نظام دکن میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خان بھی اس وعظ میں شریک ہوتے رہے۔ اعلیٰ حضرت کا وعظ سننے کے لئے بے شمار خلقت وہاں ہوا کرتی تھی‘‘ (معارف رضا ص 155)
[3/6, 10:43 AM] محمد شمسی رضوی: شیطانی وسوسہ
اخیر بات یہ کہ یہاں اس بات کا اعتراف تقریبا سب کو ہے کہ اعلیٰ حضرت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تمام بزرگوں سے محبت کرتے تھے۔ ان کی عظمت شان، رفعت مقام کے معترف تھے لیکن سرکار غوث اعظم سے جو عشق تھا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ غوث اعظم کو تمام اولیاء کا سردار مانتے اور ہرسلسلے میں آپ کے فیوض و برکات کو جاری و ساری تسلیم کرتے اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر سلسلہ کے بزرگان سلف و خلف کو ہے۔ کیا دنیائے ولایت میں کوئی ایک بھی بزرگ و ولی ملے گا جو غوث اعظم سے محبت نہ کرتا ہو؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان سے عشق نہ کیا جائے۔ انکی محبت کا دم نہ بھرا جائے۔ انکی شان میں منقبت کے اشعار نہ لکھے جائیں۔ اسکے باوجود اعلیٰ حضرت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے موقع بموقع دیگر بزرگان دین کے ذکر جمیل سے بھی اپنے قرطاس و قلم کو مشرف کیا ہے۔ ذیل میں اعلیٰ حضرت کے وہ اشعار پیش کئے جارہے ہیں جن میں بصراحت غریب نواز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا زکر حسنہ موجود ہے
بہرپایت خواجہ نہداں شہہ کیواں جناب
بل علی عینی ورأسی گوید آں خاقاں توئی
کیا اس شعر میں غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ذکر کے ساتھ سرکار غریب نواز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاتذکرہ حسنہ نہیںہے؟
عراق و اجمیر
سرکار غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا فیض ہر سلسلہ میں آیا اور ہر شیخ آپ کی برکات سے مستفیض ہوا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ چنانچہ سلسلہ عالیہ چشتیہ میںبھی سرکار غوث اعظم کا فیض جاری و ساری ہے۔ مولانا جمال الدین سہروردی سیر العارفین میں فرماتے ہیں:
’’حضرت خواجہ معین الدین چشتی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضور پرنور سیدنا غوث الاعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی حضرت کی خدمت اقدس میں ستاون یوم رہے اور آپ کے فیوضات اور تصفیہ باطن و کمال سے مستفیض ہوئے (تفریح الخاطر ص 20)
اعلیٰ حضرت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے۔
مزرع چشت بخارا و عراق و اجمیر
کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
ایک جگہ یوں گویا ہیں۔
یہ چشتی، سہروردی، نقشبندی
ہر اک تری طرف مائل ہے یا غوث
کیا اس شعر میں چشتی سے مراد سرکار غریب نواز کی ارفع و اعلیٰ ذات نہیں ہے۔
[3/6, 10:43 AM] محمد شمسی رضوی: توجہ دیں
1… اگر اعلیٰ حضرت کو خواجہ غریب نواز سے محبت نہیں ہوتی تو کثرت سے عرس غریب نواز میں شرکت کیوں کرتے بلاشبہ بار بار شرکت کرنا محبت خواجہ کی نشانی ہے۔
2… اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ اجمیر القدس میں جو متعدد تقریریں فرمائیں، وہ آج محفوظ تو نہیں ہیں لیکن بلاشبہ آپ نے سیدنا سرکار غریب نواز کے فضائل و مناقب بیان فرمائے۔ اگر آپ غریب نواز کے مناقب بیان نہیں فرماتے اور آپ کے دل میں ذرہ برابر بھی غریب نواز کے تعلق سے بغض ہوتا تو قطعی طور پر متعدد تقریروں کا موقع ہی نہیں دیا جاتا اور حضرت خواجہ کے چاہنے والے قطعی آپ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوتے۔ یقینا آپ کی متعدد تقریریں عشق خواجہ کی علامت ہیں۔
3… عرس میں شرکت کے لئے صرف تنہا نہیں جاتے بلکہ اپنے مریدوں اور ماننے والوں کو بھی ساتھ لے جاتے۔ کیا یہ محبت خواجہ کی پہچان نہیں ہے؟
سلسلہ چشتیہ کی سند خلافت
ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔
1295ھ میں… اپنے والد ماجد علامہ نقی علی خان قدس سرہ، العزیز سرکار مارہرہ مطہرہ حاضر ہوکر تاجدار مارہرہ سیدنا شاہ آل رسول احمد قدس سرہ العزیز سے شرف بیعت ہوئے۔
اﷲ اکبر! کیسی نظر کیمیا اثر پیرومرشد کی تھی اور کس درجہ قلب صفائی لے کر بیعت ہوئے تھے کہ اس جلسے میں پیرومرشد برحق نے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرما کر خلیفہ مجاز بنادیا اور تمام طریقوں میں بیعت لینے کی اجازت عامہ تامہ عطا فرمائی (حیات اعلیٰ حضرت جدید اول ص 122)
اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ کو آپ کے پیرومرشد نے جہاں سلس
لہ عالیہ قادریہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی تھی، وہیں سلسلہ چشتیہ جدیدہ و قدیمہ کی بھی اجازت و خلافت سے نوازا تھا۔
اب آپ ذرا غور کریں، اگر اعلیٰ حضرت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دل میں خواجہ غریب نواز کی محبت نہ ہوتی یا کسی طرح کی نفرت کا جذبہ ہوتا یا بغض کا شکار ہوتے تو فورا عرض کرتے، حضور! ہمارے لئے صرف سلسلہ قادریہ ہی کافی ہے دیگر سلاسل کی ضرورت نہیں۔ مگر ایسا کچھ نہیں کہا اور اگر ازراہ ادب آپ نے عرض نہیں کیا تو کم از کم یہ کرسکتے تھے کہ کسی کو سلسلہ چشتیہ میں بیعت نہ کرتے، سب کو سلسلہ قادریہ ہی طرف راغب کرتے مگر تاریخ شہادت دیتی ہے کہ اعلیٰ حضرت نے سلسلہ چشتیہ میں بھی لوگوں کو داخل فرمایا اور بعض سلسلہ چشتیہ کی سند و خلافت اور اجازت بھی عطا فرمائی۔
ایک بات اور ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آدمی کو جس سلسلے کی اجازت و خلافت ملتی ہے، ہر اس سلسلے کے مشائخ سے محبت و عقیدت لازم و ضروری ہے۔ اگر ذرہ برابر بھی کسی شیخ سے نفرت ہوئی تو اس سلسلے کے فیوض و برکات سے محروم ہوجائیگا۔ وہ کون حرماں نصیب ہوگا کہ رحمت و انوار کے بہتے ہوئے دھارے کو اپنی سمت آنے سے روک دے؟
اجمیر شریف میں اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضرت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مقدس سینہ فیضان اولیاء کا دریا تھا۔ تمام سلاسل کے فیوض و برکات کی نہریں آپ کے سینے میں آکر گرتی تھیں، آپ کے پیرومرشد سرکار آل رسول احمد مارہروی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ نے جتنے سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی تھی، ہر سلسلے میں آپ مرید فرماتے اور حسب ضرورت خلافت و اجازت عطا فرماتے۔
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ1919ء میں آپ بغرض شرکت عرس اجمیر القدس تشریف لے گئے تو حضرت علامہ غلام علی محدث اجمیری آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور آپ نے انہیں سلسلہ چشتیہ میں داخل فرمایا اور سلسلہ چشتیہ ہی کی اجازت و خلافت کی سند سے نوازا۔
No comments:
Post a Comment