قائد اہلسنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے ایک انتہائی وقیع مضمون تحریر فرمایا جس کا عنوان ہی ہے ’’بریلوی دور حاضر میں اہلسنت کاعلامتی نشان‘‘ ہے۔ ’’بریلوی‘‘ اور مسلک اعلیٰ حضرت جیسے الفاظ پر ناکوں بھوں چڑھانے والوں کو اس پس منظر میں غور کرنا چاہئے۔
برصغیرمیں اس وقت اہلسنت و جماعت کے علاوہ کثیر فرقے موجود ہیں، جیسے دیوبندی، غیر مقلدین، قادیانی، اہل قرآن، رافضی ،چکڑالوی شیعہ وغیرہ۔ ان سے اہلسنت و جماعت کا اختلاف اصولی بھی ہے اور فروعی بھی، عقائد میں بھی ہے اور معمولات میں بھی، جن میں سے بعض کا تعلق ضروریات دین سے اور بعض کا تعلق جواز اور عدم جواز سے، لیکن جیسا کہ ہم نے حضرت امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے رقم کیا کہ بعض چیزیں معمولی ہونے کے باوجود حالات کے پیش نظر غیر معمولی اور امتیازی حیثیت کی حامل ہوجاتی ہیں۔ سردست ہم چند عقائد و معمولات سپرد قلم کرتے ہیں، جن سے اہلسنت و جماعت دوسرے فرقوں سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ ندائے یارسول اﷲ ’’تقبیل الابھا مین‘‘ عقیدہ شفاعت، توسل، عقیدہ علم غیب نبی، عقیدہ حیات النبی، میلاد و قیام، عرس و فاتحہ، نذرونیاز، جلوس عید میلادالنبی، گیارہویں شریف، استعانت بالانبیاء واولیاء بناے قبات برمزارات، انبیاء اور اولیاء کی قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا، تشویب، جمعہ کی اذان ثانی کا خارج مسجد ہونا وغیرہ۔ ان چیزوں کا تعلق اگرچہ بنیادی عقائد سے نہیں لیکن عہد حاضر میں اہلسنت و جماعت کی واضح علامتیں ہیں اور عام طور پر غیر اہلسنت انہیں شرک و بدعت کہتے ہیں۔
اہلسنت و جماعت کا اختلاف دیگر جماعتوں سے اصولی مسائل میں بھی ہے اور فروعی مسائل میں بھی، اگر فروعی مسائل میں اختلاف ہو تو ان کی تذلیل و تفسیق بھی نہیں ہوگی چہ جائیکہ تکفیر، جیسے اشاعرہ کہ حضرت امام شیخ ابوالحسن اشعری رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ کے متبعین ہیں اور ماتریدیہ حضرت ابومنصور ماتریدی رحمتہ اﷲ علیہ کے متبعین ہیں۔ ان دونوں میں بعض فروع میں اختلاف ہے، ان کے اختلاف کی نوعیت حنفی اور شافعی جیسی ہے، دونوں اہلسنت و جماعت اور حق پر ہیں، لیکن جن جماعتوں سے اصولی اختلاف ہے، یا ان میں سے کسی نے ضروریات دین کا انکار کیا ہے تو وہ گمراہ اور بددین ہیں اور ضروریات دین کے انکار کرنے کی وجہ سے ان کی تکفیر کی جائیگی، شامی میں ہے ’’سچے دل سے تمام ضروریات دین کے اقرار کرنے کو ایمان کہتے ہیں اور کسی ایک ضرورت دینی کا انکار بھی کفر ہے‘‘ (شامی، جلد 3ص 391) دیوبندی مکتب فکر سے اہلسنت و جماعت کے اختلاف کی نوعیت اصولی اختلاف کی ہے۔ مشہور دیوبندی مناظر مولوی منظور احمد نعمانی لکھتے ہیں۔
’’شاید بہت سے لوگ ناواقفی سے یہ سمجھتے ہیں کہ میلاد و قیام، عرس وقوالی، فاتحہ، تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں وغیرہ رسوم کے جائز و ناجائز اور بدعت اور غیر بدعت ہونے کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں جو نظریاتی اختلاف ہے، یہ دراصل دیوبندی اور بریلوی اختلاف ہے مگر یہ سمجھنا صحیح نہیں‘‘ (فیصلہ کن مناظرہ ص 5)
دیوبندی مکتب فکر اور اہلسنت کے درمیان فروعی اختلاف بھی ہے اور نظریاتی اور بنیادی بھی۔ علمائے دیوبند نے اپنی کتابوں میں ضروریات دین کا انکار کیا، اسی بنیاد پر علمائے عرب و عجم نے ان کی تکفیر کی۔ تقویۃ الایمان، صراط مستقیم، فتاویٰ رشیدیہ، تحذیر الناس، براہین قاطعہ اور حفظ الایمان اور تکذیب باری تعالیٰ کا فتویٰ ان میں اخیر کے چار سب سے اہم ہیں جن میں ضروریات دین کا انکار کیا گیا ہے۔ اﷲ عزوجل اور سرکار کائناتﷺ کی صحیح اور شدید توہین ہے۔ مثلا مولوی اشرف علی تھانوی نے حفظ الایمان میں سرکارﷺ کے مقدس علم کو جانوروں کی طرح بتایا۔ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے ’’براہین قاطعہ‘‘ میں شیطان اور ملک الموت کے علم کو معلم کائناتﷺ کے علم سے زیادہ بتایا، مولوی قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس میں نبی آخر الزماںﷺ یعنی آخری نبی ماننے سے انکار کیا۔ اسی طرح علمائے دیوبند نے امکان کذب باری تعالیٰ کا بھی فتویٰ دیا۔
اسی طرح قادیانی، اہل قرآن، غیر مقلدین، رافضی اور شیعہ وغیرہ فرقوں سے بھی اہل سنت و جماعت کے اصولی عقائد و مسائل میں شدید اختلافات ہیں جن کی تفصیل علمائے اہلسنت کی کتابوں میں دیکھنا چاہئے۔
(3) اس سوال کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے کہ کوئی کہے کہ اسلام کے عقائد و مسائل صرف کتابوں میں ہیں یا خواص و عوام بھی ان کی رعایت کرتے ہیں؟ بلاشبہ جواب یہی ہوگا کہ اسلام کے عقائد و مسائل صرف کتابوں میں نہیں بلکہ عوام و خواص بھی ان کی رعایت کرتے ہیں۔ اگر کچھ مسلمان اپنی تساہلی یا خوف خدا کے فقدان کی وجہ سے ان کی رعایت نہیں کرتے تو اسلام کی صداقت پر ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ روئے زمین پر اسلام پر عمل کرنے والا اگر ایک فرد بھی نہ رہ جائے تب بھی اسلام کے عقائد و مسائل برحق رہیں گے۔ نظریات کی صحت عمل پر موقوف نہیں بلکہ عمل کی مقبولیت نظریات کی صداقت پر موقوف ہے۔ یہ حقیقت ایک لمحے کے لئے بھی ذہن سے اوجھل نہیں رہنا چاہئے کہ عقائد اسلام اور عقائد اہلسنت دو مختلف چیزیں نہیں بلکہ جو اسلام کے عقائد ہیں وہی اہلسنت کے عقائد ہیں۔ باطل فرقوں کے دجل و فریب سے امتیاز کے لئے یہ اصطلاح رائج ہوئی۔ اہلسنت و جماعت کے عقائد صرف کتابوں میں نہیں بلکہ جہان سنیت کی کارگہہ عمل میں ان کی عملی تصویریں سرکی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہیں۔واضح رہے کہ عقائد اہلسنت کسی ملک کا جمہوری نظام نہیں ہیں کہ حالات و افراد کے دبائو میں اسے مسترد کردیا جائے، دانش وروں کو ان پہ نظرثانی کی دعوت دی جائے بلکہ یہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، پوری دنیا بھی اگر ان سے سرگشتہ ہوجائے جب بھی عقائد اہلسنت مستحکم چٹان کی طرح ناقابل شکست و ریخت رہیں گے، بلکہ ان کے منکرین خود اسلام سے خارج اور کفر وضلالت کے صحرا میں بھٹکتے نظر آئیں گے۔ اگر کچھ افراد اپنی فکری کج روی اور آزاد خیالی کی وجہ سے عقائد اہلسنت کی رعایت نہیں کرتے تو وہ اس کے مجرم اور قرار واقعی ذمہ دار خود ہیں۔ ہم اس مقام پر امام العارفین سید شاہ ابوالحسین احمد نوری کی بنام اہلسنت ایک نصیحت نقل کرتے ہیں۔
’’ساتویں نصیحت یہ ہے کہ اپنے دین و عقائد پر سخت اور مضبوط رہیں کہ دوسرے متعصب سمجھیں، اس لئے کہ دین حق (عقائد حقہ) میں تصلب مقبولیت کی علامت ہے اور محمودوپسندیدہ اور دین باطل میں غلو بدبختی کی نشانی ہے اور مذموم و ناپسندیدہ‘‘ (سراج العوارف ص 32)
(4) عوامی رسم و رواج کا تیور بتا رہا ہے کہ اشارہ غیر شرعی امور کی جانب ہے، اہلسنت و جماعت کے تعارف میں عوامی رسم و رواج کو پیش کرنا بہت بڑی زیادتی اور ناانصافی ہے، بلکہ حریفان اہلسنت اس سلسلے میں کذب و بہتان سے بھی گریز نہیں کرتے اور بعض ایسی چیزیں بھی اہلسنت و جماعت کی طرف منسوب کردیتے ہیں جن کا وجود عوامی رسم و رواج میں بھی نظر نہیں آتا۔ غیر اہلسنت نے اہلسنت کی تفہیم میں جس شدت کے ساتھ عوامی رسم و رواج کو پیش کرکے حقیقت چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے، وہ آج کے اس شعوری دور میں انتہائی افسوسناک ہے، اس سلسلے میں ہم علمائے اہلسنت کی ترسیل فکر کی کوتاہی کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ایسے لوگوں کو ذرا عقل و دانش سے کام لینا چاہئے، اگر کوئی غیر مسلم چند بدعمل مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا یہ تعارف کرائے کہ اسلام زنا کاری، جھوٹ، فریب، شراب نوشی اور دہشت گردی کا مذہب ہے تو یہ بہت بڑی ناانصافی اور تعارف کرانے والے کا فکری اور علمی دیوالیہ پن ہوگا جیسا کہ آج اہل یورپ و امریکہ اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب کہہ کر بدنام کررہے ہیں۔
(5) اہلسنت و جماعت کا وجود عالمی سطح پربنیادی عقائد ہی کی بنیاد پر ہی تسلیم کیا جائے گا۔ امام ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ سرکار نے فرمایا:
اتبعوا السواد اعظم فانہ من شذشذ فی النار (مشکوٰۃ المصابیح، ج 1، ص30)
سواد اعظم (بڑی جماعت)کی پیروی کرو، جو اس سے جدا ہوااسے تنہا جہنم رسید کیا جائے گا۔
علامہ علی قاری مرقاۃ میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں
السواد الاعظم یعبربہ عن الجماعۃ الکثیرۃ والمراد ما علیہ اکثر المسلمین (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ج 1، ص 249)
سواد اعظم جماعت کثیرہ سے عبارت ہے اس سے مراد وہ ہے جس پر اکثر اہل اسلام ہیں۔ آج کے اس الیکٹرانک دور میں جہاں سنیت کے عقائد و امتیازات اور دیگر فرقوں سے اصولی اور فروعی اختلافات علماء پر مخفی نہیں، اس لئے دیگر فرقوں سے فروعی اختلافات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
Saturday, January 27, 2018
قائد اہلسنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے ایک انتہائی وقیع مضمون تحریر فرمایا جس کا عنوان ہی ہے ’’بریلوی دور حاضر میں اہلسنت کاعلامتی نشان‘‘ ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment