Monday, January 29, 2018

آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی خطا نہیں

آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی خطا نہیں

وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ (البقرہ آیت ۳۵)

اور اس درخت کے قریب نہ جانا کہ حدسے بڑھنے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔

آدم و حوا علیہما السلام دونوں اس درخت کے قریب گئے اور اللہ تعالیٰ کے ممانعت کے باوجود انہوں نے اسے کھالیا ایسی صورت میں آیت کریمہ کا بظاہر مفاد یہی ہوگا کہ آدم و حوا علیہما السلام (معاذاللہ) دونوں ظالم ہوگئے، مگر یاد رہے کہ آدم علیہ السلام اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے پہلے خلیفہ اور اس کے نبی ہوئے، اللہ کا نبی اور اللہ کا خلیفہ کبھی ظالم نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی بندہ حضرت آدم علیہ السلام کو ظالم کہے گا تو وہ خود ظالم و کافر قرار پائے گا۔

ظلم کے معنی: ’’وضع الشئی فی غیر موضعہ‘‘ یعنی کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کی بجائے کسی دوسری جگہ رکھ دینا۔ (تفسیر قرطبی ج۱ ص۳۰۹)

قرآن کریم میں  شرک کے لیے بھی لفظ ظلم وارد ہے حق تلفی اور حاکم کے فرمانِ حق کی نافرمانی کو بھی ظلم کہتے ہیں، بلکہ ہر معصیت وگناہ ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے کو جس کام کا حکم دے اس کی خلاف ورزی یقیناً گناہ ہے لیکن اس کا قانون یہ ہے کہ وہ بندے کو اسی کام کا حکم دیتا ہے جو بندے کے اختیار میں ہو، دیکھیے قرآن کریم نے فرمایا:

لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ ۲۸۶)

یعنی اللہ تعالیٰ کسی کی طاقت و اختیار سے باہر اسے کوئی حکم نہیں دیتا۔

ظاہر ہے  کہ بھول کر کسی کام کا کرنا یا نہ کرنا بندے کے اختیار میں نہیں، ایسی صورت میں ’’ولا تقربا ھذہ الشجرۃ‘‘ کی نہی کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ تم بھول کر بھی اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔

اب اس بات کا فیصلہ کہ حضرت آدم علیہ السلام قصداً اس درخت کے قریب گئے یا بھول کر بلا قصد؟ خود قرآن مجید  سے ہی سن لیجیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَقَدْ عَھِدْنَا اِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ آیت ۱۱۵)

’’اور بے شک ہم نے اس سے پہلے آدم علیہ السلام سے درخت کے قریب نہ جانے کا عہد لیا تو وہ بھول گئے اور ہم نے ان کا کوئی قصد نہ پایا۔‘‘

ثابت ہوا کہ آدم علیہ السلام سے کسی قسم کا کوئی ظلم سرزد نہیں ہوا نہ انہوں نے کوئی شرک کیا، نہ ان سے کوئی حق تلفی ہوئی، نہ ان سے کسی معصیت اور گناہ کا صدور ہوا۔ جیسے روزے دار کا روزے کی حالت میں بھول کر کھانا پینا گناہ نہیں اسی طرح آدم علیہ السلام کا اس درخت سے بھول کر کھالینا بھی گناہ نہیں۔ یقیناً وہ گناہوں سے پاک اور نبی ہونے کی وجہ سے معصوم ہیں۔ شیطان ان سے جس ظاہری لغزش کے صادر ہونے کا سبب بنا وہ حقیقتاً معصیت نہیں بلکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں متعلق ہیں، اس طرح حضرت آدم علیہ السلام کا ربنا ظلمنا انفسنا.....الآیۃ..... کہنا بھی ان کے ظالم ہونے کی دلیل نہیں بلکہ ان کے کمالِ عبدیت اور رب کریم کی بارگاہ میں انتہائی تواضع اور انکساری پر مبنی ہے۔ (تبیان ص۱۳۷)

No comments:

Post a Comment