فقہ حنفیہ کی وہ مشہور و معروف کتاب جو کنویں میں لکھی گئی
مع تعارف امام سرخسی
(ماخوذ : ہماری ویب ڈاٹ کام)
تاجکستان میں ایک خوبصورت شہر اوزجند کے نام سے معروف ہے۔یہ ماوائ النہر کے مردم خیز خطے فرغانہ کے صوبہ میں واقع ہے۔یوں تو اوزجند سے بڑی بڑی نامی گرامی شخصیات پیدا ہوئیں ہیں لیکن ان میں سب سے مشہور شخصیت علامہ قاضی خان(رح) کی ہے جن کے فتاوی فقہ حنفی میں مسلم الثبوت بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ مشہور حنفی فقیہ شمس الائمہ سرخسی (رح) اسی شہر میں مدتوں قید رہے ہیں اور یہیں پر انہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب’’المبسوط‘‘تالیف کی ہے۔زیر نظر مضمون میں ’’المبسوط‘‘ کا ہی تعارف اور پس منظر بیان کرنا مقصود ہے۔
شمس الائمہ سرخسی(رح) کا پورا نام محمد بن احمد ابو بکر سرخسی ہے۔وہ پانچویں صدی کے ان علمائ سے ہیں جنہیں آیۃمن آیات اللہ کہنا چاہیے۔امام سرخسی یوں تو خراسان کی ایک بستی سرخس کی طرف منسوب ہیں لیکن شاید حصول علم کے لیے فرغانہ کے اس علاقے میں تشریف لائے اور حاکم وقت کے خلاف کوئی فتویٰ دے دیا جس کی پاداش میں حاکم وقت نے انہیں ایک کنویں نما گڑھے میں قید کر دیا۔امام سرخسی(رح) جابر بادشاہ کے سامنے حق گوئی کی پاداش میں اس سخت آزمائش میں مبتلا کر دئیے گئے۔یہاں تک کہ وہ سالہا سال اس کنویں نما گڑھے میں قید رہے جہاں ان کا چلنا پھرنا بھی نا ممکن تھا۔آپ قید سے پہلے شہر کی ایک جامع مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ظاہر ہے کہ انکے شاگردوں کو اس واقعے سے کتنا دکھ پہنچا ہو گا۔انہوں نے اپنے استاد کی دل وابستگی کے لیے درخواست کی کہ ہم روزانہ اس کنویں کے منہ پر آجایا کریں گے۔آپ ہمیں جو کچھ پڑھانا چاہیں ہم اسکے لیے حاضر ہیں۔
شمس الائمہ امام سرخسی(رح) کے دل کی خواہش تھی کہ امام حاکم شہید(رح) کی کتاب الکافی کی شرح لکھیں۔چناچہ انہوں اسی کنویں سے اپنی عظیم کتاب’’المبسوط‘‘املا کرانی شروع کی۔اور علم کی تاریخ کا یہ منفرد شاہکار اوزجندکے ایک گمنام کنویں نما قید خانے میں اس طرح وجود میں آیا کہ تیس ضخیم جلدوں کی یہ کتاب کنویں سے بول بول کر کنویں کے منہ میں بیٹھے شاگردوں کو لکھوائی گئی۔
معجزانہ بات یہ ہے کہ امام سرخسی(رح)کنویں سے جو املا کرواتے تھے وہ خالص اپنی یاداشت کی بنیاد پر املا کرواتے تھے،کسی کتاب کی مدد انہیں حاصل نہ تھی۔ان کے پاس کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں تھی جس سے وہ اپنی اس عظیم کتاب کے املا لکھوانے میں مدد لے سکیں۔اور یہ بات ظاہر بھی ہے کہ کنویں میں قید ہونے کی حالت میں دوسری کتابوں سے باقاعدہ استفادہ بظاہر ممکن نہیں تھا۔جن حضرات نے مبسوط سے استفادہ کیا ہے وہ اس کرامت کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیںکہ اتنی تحقیقی کتاب جو بعد والوں کے لیے فقہ حنفی کا مستند ماخذ بن گئی،کس طرح تمام تر صرف حافظے سے لکھوائی گئی ہے۔اور واقعی یہ حقیقت ہے کہ آپ کا حافظہ اور ضبط بلا کا تھا۔ایک مرتبہ آپ اپنے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے کہا امام شافعی(رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انکو تین سو کاپیاں یاد تھیں۔اسپر امام سرخسی(رح) نے فرمایا’’حفظ الشافع زکوۃ محفوظی‘‘یعنی جتنا مجھے یاد ہے امام شافی کو اسکی زکوۃ یاد تھی۔جس کا مطلب یہ ہے کہ علامہ سرخسی(رح) کو امام شافعی(رح) سے تقریباًچالیس گنا باتیں زیادہ یاد تھیں اور انہوں نے جس طرح جس حالت میں مبسوط لکھوائی ہے اس کے پیش نظر یہ بات زیادہ کچھ زیادہ بعید معلوم نہیں ہوتی۔
ایک گڑھے میں بند ہونے کی حالت میں اس عظیم شخصیت پر کیا گزرتی ہوگی؟اس کا اندازہ بھی ہمارے لیے مشکل ہے۔اور خود انہوں نے’’ مبسوط‘‘کی تالیف کی دوران مختلف ابواب کے آخر میں اپنی اس حالت کا بڑے پر درد الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔چناچہ کتاب المناسک کے آخر میں فرماتے ہیں۔
’’ہذا آخر شرح العبادات باوضح المعانی واوجزالعبارات املاہ المحبوس عن الجمع والجماعات‘‘﴿المبسوط ۔ج۳ ص ۸۴۳﴾
﴿یہ واضح ترین مضامین اور مختصر ترین عبارت میں عبادت کی شرح کا آخری حصہ ہے،جسے ایک ایسا شخص نے املا کرایا ہے جو اس طرح قید میں ہے کہ نہ جمعہ میں حاضری دے سکتا ہے نہ جماعت سے نماز پڑھ سکتا ہے﴾
اس عبارت میں اس دلی حسرت کا انتہائی موثر اظہار ہے کہ چار ضخیم جلدوں میں نماز اور دوسری عبادتوں کے احکام ایسی حالت میں لکھوائے گئے ہیں جب خود مولف کتاب سے نماز پڑھنا تو کجا،جمعہ میں حاضر ہونے سے بھی محروم ہے۔لیکن آزمائش کی حالت میں یہ عظیم خدمت انجام دینے پر اللہ تعالیٰ نے انہیں جمعہ اور جماعت کے ثواب سے بھی نہ جانے کتنا زیادہ نوازا ہو گا۔
پھر ساتویں جلد میں کتاب الطلاق کے ختم پر فرماتے ہیں:
ہذا آخر شرح کتاب الطلاق بالموثرۃ من المعانی الدقاق املاہ المحصورعن الانطلاق المبتلی بوحشۃ الفراق مصلیا علی صاحب البراق آلہ و اصحابہ اہل الخیر والسباق صلاۃ تتصاعف وتدوم الی یوم التلاق کتبہ العبد البری من النفاق ﴿المبسوط ج ۷ ص ۷۰۱﴾
﴿یہ کتاب الطلاق کی شرح کا آخری حصہ ہے جس میں دقیق مضامین میں سے قابل ترجیح مسائل درج کیے گئے ہیں۔
اسے ایک ایسے شخص نے کھوایا ہے جو اس طرح قید ہے کہ چل پھر نہیں سکتا اور ﴿عزیزوں دوستوں کی﴾جدائی کی وحشت میں مبتلا ہے وہ صاحب براق اور آپ کے آل و اصحاب پر جو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے ایسا درود بھیجتا ہے جو قیامت کے دن تک دوگنا چوگنا رہے۔اس ایک ایسے بندہ نے لکھا ہے جو نفاق سے برائت کا اظہار کرتا ہے﴾
اسی طرح علامہ سرخسی(رح) نے کتاب الولائ،کتاب الجہاد والسیراور کتاب الاقرار کے اختتام پر بھی ایسی عبارات درج کی ہیں جو انکی اس مشقت اور حد درجہ استقامت پر دال ہیں۔
آپ نے پوری کتاب اس قید ہی کے زمانے میں املائ کروائی۔اور امت کو ایک نادر تحفہ دے گئے تاکہ آنے والی نسلیں اس سے ہمیشہ استفادہ کرتی رہیں۔یہ کتاب اس وقت سے لیکر آج تک علمائ اور فقہائ کے درمیان مستند اور لازوال کتاب ہے۔اس کتاب کو فقہ حنفی کے مستند ماخذ میں شمار کیا جاتا ہے۔
صرف یہی نہیں امام سرخسی(رح) کی دوسری مشہور ترین کتاب شرح السیر الکبیر ہے جو جبگ اور بین الاقوامی تعلقات کے اسلامی قوانین پر مستند ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ کتاب بھی قید ہی کی حالت میں لکھی گئی۔اسکے علاوہ ایک اور مشہور معروف کتاب’’اصول السرخسی(رح)‘‘بھی قید ہی کی حالت میں آپ نے تالیف فرمائی۔آخر الذکر دونوں کتابوں کا اختتام رہائی کی حالت میں فرمایا۔جبکہ ’’المبسوط‘‘کتاب مکمل قید کی حالت میں لکھی گئی۔انتہائی مشقت اور قید سخت کی حالت میں یہ عظیم الشان اور نادر کتاب جس اخلاص اور للہیت سے لکھی گئی ہوگی اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔اللہ رب العزت نے اسی اخلاص کی بدولت ’’المبسوط‘‘کو شہرت عظیمہ بخشی۔
ہمارے ان اکابر علمائ نے اپنے آج کی قدر کی۔وہ ہم جیسے گوشت پوست کے ہی انسان تھے۔اگر فرق تھا تو بس یہی کہ انہوں نے ہر لحظے ہر لمحے سے فائدہ اٹھایا۔ایک ساعت بھی ضائع کرنا اپنے لیے گناہ عظیم سمجھا۔چاہے کیسی ہی مشقت اور تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑا انہوں نے صبر و استقامت کی مثالیں قائم کیں۔انہوں نے اپنے آج کی قیمت جانی اور اسے بہتر مصرف میں گزارا۔وہ اپنا ہر دن ایسے بسر کرتے تھے گویا آج انکا آخری دن ہے۔انکی نظر کبھی کل پر مرکوز نہیں رہی۔انہوں نے کبھی کل کا نہیں سوچا۔گویا ان کے نزدیک کل کا کوئی معنی،ٰ کوئی اہمیت نہ تھی۔جس کی اہمیت تھی وہ بس آج تھا۔یہی وجہ ہے انہوں نے دین کے عظیم الشان کام سر انجام دیے۔اللہ رب العزت نے ان سے خوب دین کا کام لیا۔اور ان سے ایسے محیر العقول کام سر انجام دلوائے کہ آج ایک دنیا حیرت زدہ ہے۔’’آج‘‘ ہمارے پاس بھی ہے۔ہمیں بھی اسکی قیمت اور قدر کا بخوبی اندازہ ہے۔لیکن ہم جان بوجھ کر کل کو اہمیت دیتے ہیں۔
آج اوزجند میں نہ اس گڑھے یا کنویں کا کوئی نام و نشان موجود ہے جہاں انہوں نے سالہا سال انتہائی صبر آزما وقت گزارا نہ اس حاکم سے آج کوئی واقف ہے جس نے تکبر اور رعونت کے عالم میں ایسے مقدس شخص کو اتنی بربریت کے ساتھ قید کیا۔لیکن علامہ سرخسی(رح) کا نام آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔اور انشائ اللہ قیامت تک انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا اور لوگ انکے لیے رحمت کی دعائیں کرتے رہیں گے۔
رحمہ اللہ تعالی وجزاہ عن الامۃ الاسلامیہ احسن الجزاہ۔
No comments:
Post a Comment