*ہٹ دھرمی اچھی نہیں*
مولانا سید نورانی میاں صاحب کے
حامیین اس وقت بڑے بےقرارہیں میرےپرسنل میں آکر بہت کچھ لکھ کرمجھے سمجھانا چاہتے ہیں یہ
اچھی بات ہے مگر طریقےکار غلط ہے اب انکا بھی جواب لیجئے
جنا ب وا لا آپ کون ہیں کہاں کے رہنے والے ہو پتہ نہیں مگر
آپ نے جس پوسٹ کو بھیج کر اپنے سوال قائم کئے ہو
ان سوالوں کا جواب بھی بہت پہلے دیا جا چکا ہے کہ درگاہوں میں جو سی۔سی۔کیمرے لگے ہیں وہ مقامی پولیس پراساشن کی جانب سے ہے نہ کہ کسی بھی درگاہ کمیٹی یا سجادگان کی جانب سے نہیں
جناب حرام کا ارتکاب دو طرح کا ہوتا ہے
ایک یہ کی آدمی ارادتاؐ حرام کا ارتکا ب کرتا ہے
دوسرا یہ کہ اسکے لا علمی یا مجبوراؐ جس سے بچنا نا ممکن ہو جیسے ایئر پورٹ۔ بس اسٹیشن۔ریلوے ۔ و دیگر حکومتی دفتروں میں
جہاں بچنا نا ممکن ہے مگر یہ کہ آدمی جہاں بچنے کا چانس ہوتا ہے وہاں آدمی کیمرے میں آنے سے بچ سکتا ہے
اب سوال یہ ہے کہ اس حرام کے ارتکاب میں آدمی کا اختیار دیکھا جائیگا کہ یہ حرام کام میں ملوث اختیاری ہے یا غیر اختیاری
اگر آدمی جہاں جلسے جلوسوں میں بچنا ممکن ہو وہاں آدمی نہیں بچ پاتا ہے بلکہ اپنی مرضی سے کیمرے کو چلانا چاہتا ہے یا کمیٹی والے کیمرے چلانا چاہتے ہیں تو یہ گناہ گناہ ہی کہلائے گا اور یہ حرآم کام اختیاری کہلائےگا
وہ اس لئے کی جو مہمان مقرر آتا ہے اسکی قوم کے سامنے بڑی اہمیت ہوتی ہے وہ اس حرام کام کو روک بھی سکتا ہے
کیونکہ سارا پروگرام کامیاب کرنے کا دآرومدار اسی مہمان خصوصی پر ہوتا ہے
اب اگر اس پروگرام کو کوئی پولیس یا اور کوئی انٹلیجنس محکمہ اپنے ریفرنس کے لئے ویڈیو بنا لے تو آپ اس کو روک بھی نہیں سکتے یہی حال حج و عمرہ اور زیارت گاہوں میں ہوتا ہے جس سے آدمی بچنا نا ممکن ہے
اسطرح کے حرام کاموں کا ارتکاب غیر اختیاری طورپر ہوا کرتا ہے جسے اصطلاح شرع میں عذر کہا گیا ہے
اب آپ اپنی پوسٹ میں دو محقیقین کی تحقیق کا بھی ذکر کیا ہے
کہ شیخ الاسلام حضور مدنی میاں نے ٹی۔وی۔میں شرعی پروگراموں کو دیکھنے کے تعلق سے جواز کے قائل ہیں اور مفتی مطیع الرحمن صاحب نے بھی اسکے استعمال کی ایک جواز کی صورت بتائی ہے
اور آپ حضور تاج الشریعہ کی تحقیق کا بھی ذکر کیا ہے کہ کسی صورت ٹی۔وی۔مووی۔ کے استعمال کو جائز نہیں مانتے اس کو حرام ہی مانتے ہیں جسکی تحقیق پر مبنی کتاب اہل علم کے مطالعہ میں ہے اور اس کے جواز وعدم جواز پر دونوں محقیقین کی کتابیں موجود ہیں
سوال اس بات کا ہے کہ مولانا سید نورانی میاں نے اپنی تقریر میں کیمرے ٹی ۔وی۔ مووی۔ کے جواز پر جو بات پیش کی ہے وہ مفتی مطیع الرحمن صاحب کی یا حضور مدنی میاں صاحب کی تحقیق پیش کر دیتے کسی کو برا نہیں لگتا
مگر ٹی۔وی۔کے شرعی استعمال کرنے کو جائز کہکر جو بات انہوں نے کی ہے کہ *کسی نے ماں کا دودھ پیا ہے* آکر حرام ثابت کرے
تو اس وقت میں اہل علم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ نورانی میاں کا جملہ اکابرین کے شان میں کہ جنہوں نہ اپنی تحقیق سے حرام ثابت کر دیا ہے
کیا انکو اس جملے سے للکارنا نہیں ہوا؟
اسی لئے جو گروہ ٹی۔وی۔ مووی کو چاہے اس سے دینی پروگرام ہی کیوں نہ دیکھے جائیں حرام ثابت مانتےہیں
اب کیا انکا حق نہیں بنتا کہ انکے کئے چالینج کو قبول کرکے انکو جواب دیا جائے
اگر یہی چالینج کوئی عدم جواز کا قائل کرتا کہ کسی کے ماں نے دودھ پلایا ہے تو آکر جائز ثابت کرے
تو اس چالینج کا انکے جانب سے کیا رد عمل ہوتا
ان ساری بحثوں میں غور طلب بات یہ ہے کہ مولانا سید نورانی میاں نے اس طرح کا جملہ کہکر اکابرین کی شان میں گستاخی کی ہے
انکو اورانکےحامیین کو بلا کسی طرح کی لفظی تاویلات سے راہ فرار کئے بنا رجوع کرلینا چاہیئے کہ وہ جو اپنے ور اپنے جانبین کی تحقیق کے قائل ہی رہیں
مگر سامنے والوں کی تحقیر کرتے ہوئے جو چالینج انہوں نے کیا ہے
اس سے انکو رجوع کرنا چاہیئے یا نہیں تو
اسی راجستھان کے شہر مکرانہ میں جہاں انہوں نے چالینج کیا ہے اسی شہر مکرانہ میں آکر اپنے کئے ہوئے چالینج پر مناظرہ کر لینا چاہیئے
اس کے علاوہ جو لوگ بھی ب
بیکار لغو بحث کر رہے ہیں انکی بحثوں کا کوئی فائدہ نہیں قوم اتنی جاہل بھی نہیں کہ جناب سید نورآنی میاں کی گفتگو سن کر خاموش رہیگی اور حق وباطل سے نا آشنا رہیگی
*مشتاق احمد رضوی نظامی*
ہرپنہلی
داونگیرہ ضلع کرناٹک
09916767092
No comments:
Post a Comment