مجدداعظم سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اﷲ عنہ کی اپنے آقا پر جانثاری اور مخالفین و معاندین کی ستم شعاری
, مولانا محمد حسن علی رضوی بریلوی میلسی
سراپا علم عرفاں ذات ہے احمد رضا خاں کی
ابد مدّت رہے گا تذکرہ اُن کی جلالت کا
ایک طرف تو مجدد اعظم سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت امام اہلسنت فاضل بریلوی قدس سرہ الولی کی عالمگیر محبوبیت و مقبولیت کا یہ عالم ہے اکابر علماء و ائمہ و فقہاء حرمین طیبین اور برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش و مصر و شام و ترکی و عراق و غیرہم کے اکابر اسلام سیدنا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کی عبقری عظیم و جلیل شخصیت مقدسہ اور آپ کی جلالت علمی فقہی بصیرت خلوص و للٰہیت تقویٰ و طہارت اور عشق رسالت و اتباع سنت کا فراخدلانہ اقرار و اعتراف کرتے اور والہانہ انداز میں داد تحسین دیتے اور خراج عقیدت و محبت پیش کرتے ہیں۔ سندیں، اجازتیں، خلافتیں لیتے ہیں بالخصوص فاضل نبیل سید جلیل مولانا سید اسماعیل، شیخ الائل مولانا شاہ عبدالحق مہاجر مکی محقق جلیل مولانا سید خلیل، رئیس العلماء مولانا صالح کمال ،قاضی مکہ مکرمہ مولانا سید مصطفی مکی مولانا سید عبدالحئی،شیخ العلماء سید محمدسعید بابصیل کبیر العلماء مولانا ابوالخیر مرداد، مولانا عبداﷲ بن صدیق مفتی حنفیہ حضرت مولانا علی کمال، حضرت مفتی داغستانی حضرت مولانا عزیز وزیر اندلسی، حضرت مولانا سید احمد جنائری مالکیہ، حضرت مولانا سید احمد برزنجی مفتی شافعیہ، علامہ سید مرزوقی، ابو حسین مولانا الشیخ عمر بن ابی بکر یاجنید ،علامہ الشیخ عابدین حسین مالکیہ علامہ مولانا الشیخ علی بن حسین مالکی، علامہ مولانا الشیخ محمد علی مالکی، مولانا الشیخ سعد بن احمد دہان مدرس حرم شریف، مولانا الشیخ عبدالرحمن الاہان مولانا محمد یوسف، مولانا الشیخ احمد مکی امدادی، علامہ محمد یوسف ،مولانا الشیخ محمد صالح بن محمد بافضل مولانا الشیخ عبدالکریم الباجی الداغستانی، مولانا الشیخ حامد احمد محمد الجداوی، مولانا مفتی تاج الدین الیاس، فاضل ربانی مولانا شیخ عثمان بن عبدالسلام مدنی حنفی مفتی مدینہ منورہ، مولانا خلیل بن ابراہیم خربوتی، مولانا شیخ محمد بن احمد عمری، حضرت مولانا سید عباس بن سید جلیل محمد رضوان، مولانا عمر بن حمدان محرسی، مولانا سید محمد بن محمد مدنی دیداوی، مولاناشیخ محمد بن محمد سبوسی خیاری حرم مدینہ منورہ مدرس، غلام جلیل سیدنا مولانا حسین بن صالح، حمل الیل، مولانا مفتی سید شریف احمد برزنجی حضرت مولانا محمد عزیز وزیر مالکی مغربی اندلسی، حضرت فاضل علامہ عبدالقادر توفیق شبلی طرابلسی حنفی مسجدکریم نبوی، مولانا سید محمد علوی مکی قاضی القضاۃ، علامہ شیخ محمد مغربی الجرائری، مولانا علامہ درویش عبدالرحمن بانجو، حضرت الشیخ سید شریف حسین والئی حجاز مکہ مکرمہ وغیرہم قدست اسرارہم بالخصوص برصغیر ہندو پاک کے اکابر و اسلاف علماء و مشائخ خاتم الاکابر خسرو اولیاء سیدنا سید شاہ آل رسول قادری، نور العارفین سیدنا سید شاہ ابوالحسین احمد نوری، فاضل عظیم و جلیل تاج الفحول محب الرسول، مولانا شاہ عبدالقادرقادری بدایونی، رئیس الحدثین مولانا شاہ علامہ وصی احمد محدث سورتی، حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی، شیخ المشائخ سیدنا سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی، امیر ملت سیدنا سیدپیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری، حضرت شیخ طریقت میاں محمد شیر نقشبندی پیلی بھیتی، شیر ربانی عارف حقانی میر شیر محمد نقشبندی شرق پوری، مجذوب حقانی حضرت مجذوب بابا باندرہ شریف، مجذوب ربانی حضرت مجذوب بشیر الدین مسجد اخوند زادہ بریلی شریف، امام العلماء مولانا شاہ رضاعلی خان صاحب، استاذ الکل مولانا شاہ محمد گل قادری، حضرت مولانا احمدحسن کانپوری، مولانا محمدحسین الہ آبادی، مولانااحمد حسین کانپوری، مولانا عبدالوہاب لکھنوی، حضرت مولانا مفتی محمد عبدالباری فرنگی محلی، سیدنا شاہ صوفی محمدحسین چشتی مراد آبادی، سراج المشائخ سیدنا شاہ خواجہ محمد سراج الحق چشتی صابری، زمانہ قریب اکابر اسلاف کرام حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مظہر اﷲ صاحب نقشبندی مجددی، فخر المحدثین علامہ سید محمد خلیل چشتی الکاظمی محدث امروہوی، حضرت علامہ سید محمددیدار علی شاہ محدث الوری حضرت مولانا مفتی عبدالمقتدر بدایونی، شیر بیشۂ سنت مولانا ہدایت رسول لکھنوی پیر صاحب گولڑہ شریف، پیر صاحب بلگرام شریف پیرصاحب، کالپی شریف، پیر صاحب تونسہ شریف مخدوم المخادیم پیر سید محمد صدر الدین گیلانی ،حضرت مولانا محمد یار صاحب چشتی نظامی، حضرت خواجہ محمد قمر الدین شیخ الاسلام چشتی سیالوی، شیخ طریقت مولانا پیر میاں علی محمد خان صاحب چشتی نظامی، حضرت مولانا سید شاہ احمداشرف چشتی کچھوچھوی، حضرت پیر طریقت پیر سید محمد چندہ حسینی چشتی اشرفی قطب رائچور شریف، وغیرہم قدست اسرارہم۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کے عقیدہ و مسلک کے موئئد و معتقد ہیں اور ان کی عظیم و جلیل علمی دینی خدمات کے معترف ہیں۔ الغرض عصر رواںعہدحاضر میں قادری چشتی صابری نظامی نقشبندی سہروردی مجددی برکاتی، جماعتی سنی صحیح العقیدہ جملہ علماء و عوام و مشائخ طریقت پیران عظام سنی حنفی بریلوی کہلانے میں فخر محسوس کرتے اور سعادت سمجھتے ہیں۔
زمانے بھر میں تمہارا ہی نام روشن ہے رضا
یہ نعت نبی نے بلندیاں بخشیں
اور یہ کہ
سب یہ صدقہ ہے مدینے کے چمکتے چاند کا
نام روشن اے رضا جس نے تمہارا کردیا
ایک طرف اکابر اسلام کی مبارک نظروں میں سیدنا اعلیٰ حضرت کی یہ عظمت اور یہ وقعت کہ اپنا امام و پیشوا اورمجدد برحق مانیں۔ لیکن اس کے برعکس۔عہد حاضر وعصر رواں میں بعض چھوٹے چھوٹے ننھے منے معاندین و حاسدین نہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی تحقیقات علمیہ فقہی بصیرت روح کمال کی گردراہ کو چھو سکیں۔ اکثر کی کتابوں کی چند سطریں چند صفحات پڑھ سکیں اور نہ امام اہلسنت سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تصنیفات عالیہ و تالیفات مقدسہ کا تاریخی نام پڑھ سکیں نہ ان کا معنی و مفہوم سمجھ سکیں ،نہ عربی کا ترجمہ کرسکیں، نہ فارسی کے تراجم کرسکیں۔ بلکہ بہت سے تسلسل سے مربوط انداز میں عبارات پڑھ سکیں نہ املا و عبارت لکھ سکیں۔ وہ بزعم خود فاتح بریلویت فاتح رضاخانیت بنے پھرتے ہیں۔ خود غلط، املا غلط، انشاء غلط۔ یہ لوگ اپنے در بھنگی چاند پوری، منظور سنبھلی کاکوری لکھنوی، ٹانڈوی قسم کے مفرور و بھگوڑے شکست خورہ نام نہاد مناظرین و مصنفین کی تردید شدہ کتابوں کو ازسرنو شائع کررہے ہیں اور توہین آمیز گستاخانہ کتابوں میں خود ترمیم تحریف قطر بیونت و خیانت کرکے عبارات بدل اور ان مذموم تاویلات کرکے شائع کررہے ہیں۔ جتنے الٹے سیدھے چکر چلاتے ہیں دلدل میں پھنستے جاتے ہیں۔
تمہاری توہین اپنے ہاتھوں سے خود ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک یہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
دوسری طرف تھے منے طفل مکتب نومولود قلمکار مصنفین و خود ساختہ بے خبر مناظرین جن کو نہ اپنے اکابر کے عقیدہ و مسلک کا علم، نہ اپنے مدمقابل اکابر اہلسنت و امام اہلسنت سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اﷲ عنہم کے عقیدہ و مسلک سے کماحقہ آگاہی اور واقفیت بے ہنگم اندھا دھند قلمکاری کررہے ہیں اور خطوط موبائل فون پر میسج بھیج کر اندرونی غلاظت و نجاست اگل رہے ہیں۔ اپنے اکابر کی گستاخانہ عبارات پرنہ سچے دل سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں نہ ان توہین آمیز عبارات قرار واقعی صحیح و معقول تاویل کرسکتے ہیں نہ ان عبارات میں تاویل کی گنجائش ہے اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ یہ لوگ جب اپنے اکابر کی توہین آمیز گستاخانہ عبارات کی مختلف النوع تاویل کرتے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اور کچھ کا کچھ لکھتے ہیں۔ تاویلات کے تضاد میں خود پھنس کر رہ جاتے ہیں مثلا مولوی عبدالشکور کاکوروی نے جو تاویل کی اس کی رد مولوی منظور سنبھلی مدیر الفرقان لکھنو پر پڑتی ہے۔ منظور سنبھلی جو تاویل کرگیا اس کی رد ٹانڈوی اجودھیا باستی پر پڑتی ٹانڈوی صاحب نے جو کچھ دھر گھسیٹا وہ در بھنگی چاند پوری کی تاویل کا سرے گنانورا ٹانڈوی نے جو بک بک کی وہ سلطان سنبھلی کے جوڑوں میں بیٹھ گئی اور ان سب کی لایعنی و مذموم تاویلات اور تاویلات کے باہمی الجھائو اور باہمی تصادم سے نانوتوی صاحب گنگوہی صاحب تھانوی اور انبیٹھوی قتیل بالاکوٹی پر خود بخود حکم شرعی ثابت ہوگیا اور حسام الحرمین شریفین و الصوارم الہندیہ کی تائید و تصدیق ہوگئی اور سیدنا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فاروق نور و ظلمت فاضل بریلوی کی حقانیت و صداقت کا آفتاب جگمگا اٹھا۔
مصنفین و مناظرین اہلسنت
٭ اس بات کو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھیں کہ وہ مخالفین اہلسنت سے حتی الوسیع تحریری مناظرہ کریں۔
٭ بنیادی اصولی مسائل میں مناظرہ کریں
٭ فروعی، ظنی مسائل میں مناظرہ نہ کریں
٭ جس مسئلہ پر گفتگو ہو اس مسئلہ میں مدمقابل مخالف مناظر کے عقیدہ و مسلک کی تحریر حاصل کریں
٭ مخالفین اہلسنت آج کل سیدنا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت قدس سرہ العزیز پر بے تحاشا بے ہنگم الزامات لگا رہے ہیں۔ کھلی افتراء پردازی کرکے اپنا نامہ اعمال سیاہ سے سیاہ تر کررہے ہیں۔ جب کوئی مردود، سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی کسی کتاب کا حوالہ دے تو سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی اصل کتابوں سے حوالہ ملا لیا جائے اورعبارات اعلیٰ حضرت اصل کتابوں سے مطابقت کرلی جائے۔
٭ مخالفین کی کتابوں تحذیرالناس، برائین قاطعہ، حفظ الایمان، فتاویٰ گنگوہی، صراط مستقیم، تقویۃ الایمان، رسالہ الامداد، وغیرہم کے کئی کئی ایڈیشن کئی کئی چھاپے اپنے پاس رکھیں ان کا تضاد ظاہر کریں۔ تاویلات کے تضادات سے اپنا موقف ثابت کریں۔
یہاں یہ بات رکھنا بھی ازحد لازم اور ضروری ہے کہ امام اہلسنت اعلیٰ حضرت قدس سرہ اور اکابر علماء عرب و عجم اکابر اہلسنت نے کسی پربلاوجہ ناحق حکم شرعی واضح نہیں فرمایا بار بار خطوط اور رجسٹریوں کے ذریعہ ان کی گستاخانہ عبارات سے توبہ اور رجوع کی تلقین فرمائی۔ آمنے سامنے گفتگو کی بار بار دعوت دی، مکہ معظمہ میں انبیٹھوی صاحب مکہ سے جدہ بھاگ گئے۔ مراد آباد یوپی میں تھانوی صاحب نے راہ فرار اختیار کی پھر خورجہ خود سامنے آنے کی بجائے در بھنگی چاند پوری کو آگے کردیا۔ لاہور کے فیصلہ کن مناظرہ میں شہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام شیخ الانام حضرت علامہ محمد حامد رضا خان صاحب بریلوی قدس سرہ کے سامنے آنے کی جرأت و ہمت نہ ہوئی۔ خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل مراد آبادی قدس سرہ انبیٹھوی سے مناظرہ کرنے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور پہنچ گئے۔بمبئی اور احمد آباد گجرات اور نانپارہ بہرائچ ضلع انائوس محدث اعظم پاکستان اور شیر بیشۂ اہل سنت کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچارہوئے۔بریلی شریف کے چار روزہ مناظرہ میں امام اہلسنت محدث اعظم پاکستان قدس سرہ سے شکست فاش کھائی۔ سنبھلی صاحب جوتیاں کتابیں عینک چھڑی چھوڑ کر بھاگے ادری اعظم گڑھ مئوناتھ بھجن میں اور سپلانوالی سرگودھا، ملتان شریف، شہر سلطان پور مظفر گڑھ، شیر رضا شیر بیشہ اہلسنت قدس سرہ نے شکست فاش دی ہر جگہ حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کا پرچم لہراتا رہا۔ اور ان کے خودساختہ مناظرین، مجہول مطلق مصنفین اپنے اکابر کی توہین آمیز گستاخانہ عبارات پر پردہ ڈالنے کے لئے سیدنا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت پر معاذ اﷲ توہین و تنقیص اور گستاخیوں سراسر باطل الزامات لگا کرصریحا حساب کھاتہ برابر کرکے دکھانا چاہتے اور لایعنی حوالہ جات دے رہے ہیں اور حقیقت کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اس موقع پر ہم یہ پوچھنا اور معلوم کرناچاہتے ہیں کہ آپ کے مسلمہ اکابر میں سے مولوی گنگوہی صاحب، مولوی تھانوی صاحب، مولوی انبیٹھوی صاحب، مولوی کاشمیری صاحب، محمود الحسن وغیرہم نے سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا زمانہ پایا۔ انہوں نے یہ الزامات کیوں نہیں لگایا۔ مذکورہ بالا جوان کے حقیقی اکابرین ہیں انہوں نے اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت کی کتابوں کاجواب کیوں نہ دیا۔ انہوں نے توہین و تنقیص کا الزام کیوں نہ لگایا، انہوں نے معاذ اﷲ گستاخ قرار کیوں نہ دیا۔ آج اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کے وصال شریف کے سو سال بعد جوڑ توڑ کرکے کھینچا تانی کرکے اپنے اکابر کے برابر قرار دینا چاہتے ہو اور دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی حوالے ہیں۔ہمارے پاس بھی دلائل ہیں۔ آیئے ہم مسلمہ معتمد علیہ اکابرین دیوبند سے ثابت کرتے ہیں اور اعلیٰ حضرت مجدد اعظم دین و ملت کے ایمان و اسلام اور فضل و کمال کی ناقابل تردیدشہادت بحوالہ کتب پیش کرتے ہیں۔
ترے اعداء میں رضا کوئی بھی منصور نہیں
بے حیا کرتے ہیں کیوں شور بپا تیرے بعد
بدگو دشنامی گستاخ اہل توہین کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں واﷲ العظیم (خدا کی قسم) وجندۂ خدا (احمدرضا) بخوشی راضی ہے اگر یہ دشنامی حضرات بھی اس بدلے پر راضی ہوں کہ وہ اﷲ و رسول جل جلالہ و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی جناب میں گستاخی سے باز آئیں اور یہ شرط لگائیں کہ روزانہ اس بندہ (احمد رضا) کو پچاس ہزارمغلظہ گالیاں سنائیں، لکھ لکھ کر شائع فرمائیں اور اگر اس قدر پر بھی پیٹ نہ بھرے اور محمد رسول اﷲﷺ کی گستاخی سے باز رہنا اس شرط پر مشروط رہے کہ اس بندہ خدا (احمد رضا) کے ساتھ اس کے باپ دادا اکابر علماء قدست اسرارہم کو بھی گالیاں دیں، اینھم برعلم اے خوشا نصیب اس کا… کہ اس کی آبرو اس کے آبائو اجداد کی آبرو بدگویوں (گستاخوں) کی بدزبانی سے محمد رسول اﷲﷺ کی آبرو کے لئے سپر (ڈھال) ہوجائے سیدنا حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بدگویان مصطفیﷺ سے فرماتے ہیں:
فان ابی ووالدہ و عرضی … بعرض محمد منکم وقاء
یعنی اے بدزبانو! میںاس لئے تمہارے مقابل کھڑا ہوں کہ تم مصطفیﷺ کی بدگوئی سے غافل ہوکر مجھے اور میرے باپ دادا کو گالیاں دینے میںمشغول ہوجائو۔ میرے باپ دادا کی آبرو محمد مصطفیﷺ کی آبرو کے لئے سپر (ڈھال) ہوجائے۔ الٰہی ایسا ہی ہو۔ آمین
یہی وجہ ہے کہ بدگو حضرات اس بندہ خدا پر کیا کیا بہتان طوفان اس کے ذاتی معاملات میں اٹھاتے ہیں۔ اخباروں، اشتہاروں میں طرح طرح کی گڑھتوں (اپنی طرف سے گھڑ کر) کیا کیا خاکے اڑاتے ہیں مگر وہ (احمد رضا) اصلاًقطعاً نہ اس طرف التفات کرتا نہ جواب دیتا ہے اور وہ (احمد رضا) سمجھتا ہے جو وقت مجھے اس لئے عطا فرمایا گیا کہ بعونہ تعالیٰ عزت محمد رسول اﷲﷺ کی حمایت کروں۔ حاشا کہ اسے اپنی ذاتی حمایت میں ضائع ہونے دوں۔ اچھا ہے کہ جتنی دیر مجھے برا کہتے ہیں محمد رسول اﷲﷺ کی بدگوئی (گستاخی) سے غافل رہتے ہیں۔ (حسام الحرمین شریفین ص 50 ملفوظات )
حضرت صدر الافاضل مراد آبادی علیہ الرحمہ کے ایک مشورہ کے جواب میں فرمایا۔ مولاناتمنا یہ تھی کہ احمد رضا کے ہاتھ میں تلوار ہوتی اور احمد رضا کے آقا و مولیٰﷺ کی شان میں
گستاخی کرنے والوں کی گردنیں ہوتیں اور اپنے ہاتھ سے ان گستاخوں کا سر قلم کرتا… یہ تو اپنے اختیار میں نہیں۔ اﷲ عزوجل نے قلم عطا فرمایا ہے تو میں قلم سے سختی اور شدت کے ساتھ ان بے دینوں کا رد اس لئے کرتا ہوں حضور اقدسﷺکی شان میں بدزبانی کرنے والوں کو اپنے خلاف شدید رد دیکھ کر مجھ پر غصہ آئے پھر جل بھن کر مجھے گالیاں دینے لگیں۔ میرے آقاﷺ کی شان اقدس میں گالیاں بکنا بھول جائیں۔ اس طرح میری اور میرے آبا ؤ اجداد کی عزت و آبرو حضورﷺ کی عظمت جلیل کے لئے سپر (ڈھال) ہوجائے (سوانح مجدد اعظم امام احمد رضا ص131)
فرمایا: کئی ہزار کی تعداد میں وہ لگ ہوں گے جنہوں نے نہ کبھی مجھ کو دیکھا نہ میں نے کبھی ان کو دیکھا اورروزانہ صبح اٹھ کر پہلے مجھے کوستے ہوں پھراور کام کرتے ہوں گے اور بحمدﷲ تعالیٰ لاکھوں کی تعداد میں (اور اب کروڑوں کی تعداد) میں وہ لوگ بھی نکلیں گے جنہوں نے نہ کبھی مجھ کو دیکھا اورنہ میں نے ان کو دیکھا اورروزانہ صبح اٹھ کرنماز کے بعد میرے لئے دعا کرتے ہوں گے… پھر فرمایاگالیاں جو چھاپتے ہیں اخباروں میں اور اشتہاروں میں وہ اخبار اشتہار تو ردّی میں جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں لیکن وہ چٹکیاں جوان کے دلوں میں لی گئی ہیں وہ قبروں میں ساتھ جائیں گی اور ان شاء اﷲ تعالیٰ حشر میں رسوا کریں گی (ملفوظات حصہ سوم ص 317)
تو بن کے ترش رو مجھے گالی ہزار دے
یہ عشق وہ نہیں جسے ترشی اتار دے
No comments:
Post a Comment