(فتنہ پروروں پر ایک نظر)
قسط اول
نوشاد و ناصر اور ذیشان صاحبان کی سراوی صوفیت بمعنی گمراہیت گیری کا تماشہ دیکھئے اور سرکوبی کیجئے مطلب مذمت کیجئے ۔ گاہ بگاہ صوفیت کے جھوٹے مدعی اور کسی کو کچھ نہ کہنے کا دعوی کرنے والوں کا مکروہ و منحوس چہرہ دیکھئے ۔ مفتی ذوالفقار صاحب کی شان میں کہتے ہیں ۔ مفت کے مفتی ۔ خیر سے مفتی ۔ پیٹ پالو اس کے علاوہ بھی جملے ہیں ۔ تاج الشریعہ کی شان میں ناگفتہ بہ کلمات ۔ فاضل بریلوی کی شان میں اقوال قبیحہ کا اطلاق مثلا متکبرانہ ذہنیت ۔ خطاکار ۔ فرقہ باز ۔ تکفیری ۔ گھمنڈی علاوہ علاوہ ۔ اکابرین اہلسنت تمام کے تمام کو جاھل ۔ اندھی عقیدت کا حامل ۔فتوی باز ۔ فرقہ ساز ۔ یہ سب مفہوم ان لوگوں کی تحریر ات سے مستفاد ھے اس کے پیچھے ان حضرات کا مقصد کیا تو سنئے وہ لوگ اپنے باپ پادری پاکستانی کے مشن کو عام و تام کرنے کے درپے ہیں وجہ یہ ھے کہ یہ لوگ اس کے زر خرید غلام ہیں ۔ ان کا مقصد فاضل بریلوی وعلماء اہلسنت کے اثرات فاضلانہ و محققانہ و مدبرانہ و مفکرانہ کا اثر ختم کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ھے ۔دوم ان جاھل ۔ گمراہ و گمراہ گر باپ ابو میاں ہیں جن کے گمراہ کن صوفیت کی اشاعت و ترویج ھے ۔ خیر ۔ سرے دست اس کا جواب ھے جوان لوگوں نے مفتی ذوالفقار صاحب نعیمی کی شان میں نازیبا کلمات بکےہیں اس تعلق سےبس اتناہی کہنا ھے کہ وہ آج بھی وہیں ہیں جہاں تھے ان خصائل سے متصفین کو نحو کی زبان میں مبنی کہا جاتا ھے ۔ جو ہرحال میں اپنے نصب العین پر برقرار رہتا ھے ۔ مفتی ذوالفقار صاحب نعیمی اس پر برقرار ہیں اور ان شا ء اللہ برقرار رہیں گے ۔ مگر نوشاد ۔ ناصر اور ذیشان صاحبان اپنی حالت دیکھیں تم لوگوں میں تغیر و تبدل کی حالت کچھ زیادہ ہی پائ جاتی ھے اس صفت سے متصف افراد کو نحو کی زبان میں معرب سے تعبیر کیاجاتا ہے جیسا عامل آتا ھے وہ جس طرح کا عمل کرنا چاہتا ھے معمول اس کو قبول کرلیتا ھے اس طرح اس کی حرکت بدلتی رہتی ھے ۔ معرب اسی کا نام ھے جو عوامل کے اختلاف سے مختلف ھو ۔ تھوڑا اس جانب سے رخ ہٹادیں تو کہنا بالکل صحیح ھوگا یہ ایک غیر معیاری آدمی کی خصلت ھوتی ھے جو تم لوگوں میں بدرجئہ اتم موجود ھے ۔ کل تک رضا رضا کرتے رہے ۔ چونکہ علم لینا تھا ۔ زبان لینی تھی جب لے چکے تو گم گشتئہ راہ کو اپنا سب کچھ سونپ دیا اب اس نے جیسا عمل کرنا چاہا کیا اس کے بعد وہابیہ ۔ دیابنہ عامل کی شکل میں آگیا ھےتم نے اس کو بھی قبول کرلیا ھے اب جیسا اس کا اثر ہورہا ھے وہی رنگ تم میں جھلک رہا ھے بات صاف ھے کہ تم مفتی ذوالفقار صاحب نعیمی کی نہیں اپنی خصلت بیان کررہے ھو ۔ پیٹ پالو تو تم ہو ۔ مگر الزام دوسروں کے سر رکھ رہے ھو ۔ حیرت ھے۔ اس آئینہ میں دیکھ لو تمہیں مفتی ذوالفقار صاحب نعیمی کے چہرہ میں اپنا ہی چہرہ دکھائ دیگا ۔ تم ہمیشہ دلیل دلیل کی رٹ لگاتے ہو مگر تمہارامضمون مکمل دلیل سے خالی ھوتا ھے ۔ تم نے سوائے لن ترانی و الزام تراشی کے کبھی کچھ لکھا ھے۔ جواب فقط نفی میں ھوگا ۔ سنجیدہ اور مہذب کلام کا بھی رٹ لگاتے ھو ۔ پیٹ پالو کا لفظ استعمال کرنا تمہارےیہاں مہذب ھے ۔ خیر سے مفتی کے لفظ کا استعمال کرناتمہارے نزدیک مہذب ھے ۔ فلاں فلاں کو کافر کہدیا کی جھوٹی روایات بیان کرنا تمہارے قبیلہ کے اصول کے مطابق مہذب اور استدلالی ھے ۔ کوئ دفاعی جواب دے تو اس کو بلاک کردینا تمہاری تہذیب ھے ۔ رضاخانی کہہ کر مخاطب کرنا ۔ گالی نہیں تمہاری تہذیب ھے ۔ مذکورہ کلمات گالی نہیں بلکہ تمہاراادب ھے ۔ مسلک اعلی حضرت کے اطلاق پر انگشت نمائی کرنے سے پہلے ماتریدیہ ۔ اشاعرہ ۔ حسینی ۔ جواز المسح علی الخفین ۔ اس سے قبل تفضیل الشیخین ۔ حب الختنین ۔ اس سے قبل ما انا علیہ و اصحابی ۔ تمسکو ا بسنتی و سنتہ الخلفا ء ۔ پھر مسلک اہلسنت ۔ قادری ۔ چشتی ۔ نقش بندی ۔ سہر وردی ۔ حنفی ۔ مالکی ۔ شافعی اور حنبلی ان سب علامات کو ھٹالو اس کے بعدبات کرنا مسلک اعلی حضرت کی ۔ یہ دلائل نظر نہیں آتے ذرا عصبیت کی عینک اتار کراس کو دیکھو ۔ اس کے بعد مسلک اعلی حضرت کی بات کرنا۔ تم نے یہ سمجھ رکھا کہ فیس بک ٹوئٹر پر جھوٹی باتوں کا انتساب کرکے پھیلا دیں گے تو تمہاری ناری انا کو تسکین ملجائے گا اور حقانیت معتوب ھو جائے گی تیرے جیسے پہلے بھی آئے اور نا شا ئستہ حرکت کرکے سوئے عدم سدھار گئے اور تیرا وقت بھی قریب آچکا ھے جب جباری و قہاری سوط کی مارپڑنے لگتی ھے تو اچھے اچھوں کی بولتی بند ہوجاتی ھے۔ رہی تیرے ٹوئیر پر پھیلائ ھوئ گندگی کا تو سن لے بریلی کی صحت پر اسں کا کوئ اثر پڑنے والا نہیں ھے لوگ تیرے مضمون کو پڑھ کر تجھے تھوک رھے ھیں کیونکہ تیری حقیقت ہی کیا ھے وہ لوگ اسلاف کو دیکھ رھے ہیں ۔ ان کی پاکیزہ اور حقانیت و صداقت سے مملو عبارت کو سرمئہ نظر بنا چکے ہیں اور بزبان حال یہی کہہ رھے ھیں ۔ یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے۔
Mufti maqsod
جاری ہے
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت ( قسط 2)
غلام مصطفیٰ نعیمی gmnaimi@gmail.com
(مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی)
سراوی خانقاہ کے زیر سایہ اہل سنت مخالف نظریات پر کام کرنے والی ٹیم کے ایک اہم رکن رامپور کے ایک نیم مولوی نیم صوفی بھی ہیں. آنجناب عرصہ دراز سے اہل سنت کے معتقدات ونظریات پر مختلف حیلوں سے اعتراض کر رہے ہیں...
خود ہی فیس بک پر اعتراض کرنا اور خود ہی اس سے نتیجہ نکال کر اکابر پر طنز کرنا موصوف کا محبوب مشغلہ ہے-
حق پسندی اور عدل وانصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ جن قدآور اساتذہ کی بارگاہ سے لکھنے ، پڑھنے کا شعور حاصل کیا انھیں کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے اعتراضات پیش کرتے اور ان کے علم وعرفان کی روشنی میں شکوک و شبہات کا ازالہ کرتے. لیکن برا ہو احساس برتری کے خمار کا, آنجناب اپنے اساتذہ کی بارگاہ میں حاضر کیا ہوتے؟ الٹے انہیں کے علم وعقل پر معترض بن بیٹھے اور لگے انہیں چیلنج کرنے!!
شاید ایسے ہی ناخلف شاگردوں کو دیکھ کر کسی استاذ نے کہا تھا :
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
جب بولنے لگے تو ہمیں پر برس پڑے
اگر "مصلح" صاحب کی نگاہ کوتاہ میں ان کے اساتذہ تشفی نہیں کرا سکتے تھے تو اپنے اعتراضات کو تحریری شکل میں ملک کے دیگر اکابر اہل علم کی بارگاہوں میں پیش کرتے لیکن! جب مقصود ہی فساد وانتشار تھا تو یہ ساری زحمت کیوں اٹھاتے؟ اس لیے فیس بک پر ہی شرار بولہبی کا حصہ بن گئے....
اس سے پہلے کہ موصوف کے اعتراضات کی جانب رخ کریں پہلے معترض کے فکری خدوخال اور ذہنی کیفیت پر نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ معترض کے اعتراضات کس معیار کے ہیں....ہم ہرگز ذاتیات پر نقد پسند نہیں کرتے لیکن ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ "انسان کے کام اس کی عادت واطوار کا پتا دیتے ہیں اور کسی بھی انسان کو سمجھنے کے لئے اس کی حرکتوں کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے".اب ایک سرسری نظر رامپوری صاحب کی "حرکتوں" پر ڈال لیں...
⚫️ رامپوری صوفی جی کے ہم سبق ساتھیوں نے بتایا کہ جناب پڑھتے کم تھے اساتذہ کے طریقہ تدریس پر منفی تبصرہ زیادہ کرتے تھے اور باقی وقت میں طلبہ کی جانب سے نکلنے والے جداریوں پر انگشت نمائی کرنا, خامیاں تلاشنا اور اساتذہ کی کمیاں گنانا محبوب مشغلہ تھا.فراغت تک موصوف اسی "کار بزرگ" میں مصروف رہے.
⚫️ رامپور میں کچھ فرضی مزارات کے مسئلے پر مفتی سید شاہد علی رضوی کے خلاف ہی پوسٹر وپمفلٹ بازی کی..سوشل میڈیا پر جھوٹی باتیں پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا. حالانکہ یہ قضیہ قاضی شرع کی حکمت وفعالیت سے ہی حل ہوا.
⚫️ صوفی کانفرنس کے روح رواں سید اشرف میاں کچھوچھوی اور ان کے علما ومشائخ بورڈ کو ہندؤں کا آلہ کار, حکومت کا پِچھ لگّو اور آر ایس ایس کا چمچہ قرار دیا.
⚫️ نوشاد عالم چشتی صاحب کے مجوزہ "انسانیت سیمینار" کو لیکر منتظیمن پر آر ایس ایس سے سازباز کرنے اور ملت فروشی کا الزام لگایا جس پر نوشاد چشتی صاحب نے رامپوری صاحب کو "چھلنی بھی بولی" کہہ کر تمسخر اڑایا..
⚫️ سادات کرام کو "نسلی برتری کا فرعون" قرار دیا....
⚫️ اپنے مادر علمی جامعہ اشرفیہ کے سند ودستار سے متعلق قانون کو لیکر اساتذہ اشرفیہ کو "جاہل,غالی مقلد اور فتنہ پرور قرار دیا...
⚫️ تحفظ ختم نبوت پر احتجاج کر رہے کنزالعلما ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب پر بڑا گھٹیا اور بازاری تبصرہ کیا..
⚫️ علامہ خادم حسین رضوی کے ختم نبوت کے مجرموں کے خلاف دھرنے کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹیں لکھیں..
⚫️ اعلی حضرت اور دیگر اکابرین اہل سنت پر "جہالت, متکبر, گھمنڈی اور اندھ بھکت" جیسے پھوہڑ اور بھدّے جملے لکھ اپنی خاندانی تربیت کا پتا بتایا.
قارئین باتمکین!!
یہ سب مشتے نمونہ از خروارے ہے. اگر آنجناب کے اعتراضات وہفوات کا بالتفصیل جائزہ لیا جائے تو ممکن ہے خود کے والدین پر بھی اعتراض مل جائے... اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ناقدِ حسام الحرمین کی طبیعت اور مزاج کس خمیر سے تیار ہوا ہے. جو انسان کھلے بندوں اعلی حضرت,اکابرین اہل سنت, بزرگان دین پر رکیک اور بھدّے جملے کستا ہو اور سمجھانے پر کہتا ہو"شخصیت کو ماننا ایمان کا حصہ نہیں ہے" ایسے انسان کو اپنے انجام سے ڈرنا چاہیے کہ خصوص کا انکار نصوص کے انکار پر منتج ہوتا ہے...
بزرگوں کی بے ادبی اور توہین کے متعلق اعلی حضرت تحریر فرماتے ہیں :
واللہ! ان(اہل اللہ) کے مخالف سے اللہ عزوجل نے لڑائی کا اعلان فرمایا ہے.خصوص کا انکار نصوص کے انکار کی طرف لے جاتا ہے.
شاخ پر بیٹھ کر جڑ کاٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرہ تیرا"
(جاری)
No comments:
Post a Comment