Tuesday, February 27, 2018

حدیث اے اللہ کے بندو میری مدد کرو

حدیث اے اللہ کے بندو میری مدد کرو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ ایک مشہور حدیث ہے اور سند کے حساب سے متعدد طرق سے بیان ہوئی ہے اور حسن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حدیث کے بارے میں ابن وھاب نجدی کے پیروکار کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یوں ان کی مذہبی دکانداری چل رہی ہے۔ یہاں پر اس کا مفصل رد پیش کیا جارہا ہے۔ یہ حدیث اور اس نوع کی دیگر احادیث مکمل طور پر صحیح ہیں۔
ترجمہ حدیث:۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : جب تم میں سے کسی کی سواری بے آباد زمین میں چھوٹ بھاگے تو اسے چاہیئے کہ نداء کرے (یعنی صدا لگائے): اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے حکم سے ہرزمین میں بندہ موجود ہے جو جلد ہی اسے تم پر روک دیگا۔
تخریجِ حدیث:۔اسے ابوالقاسم سلیمان بن احمد لخمی شامی طبری نے اپنی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور امام ذھبی نے آپ کو سیر اعلام النبلاء میں امام حافظ ثقہ رحال جوال محدثِ اسلام صاحب المعاجم کے القابات سے یاد کیا ہے۔
ابوشجاع الدیلمی الھمذانی نے اسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (حوالہ مسند الفردوس بماثور الخطاب: ج ۱، ص ۳۳۰)۔
شھاب الدین احمد بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یوں نقل کیا ہے: باب ما یقول اذا الفلتت دابتہ: یعنی جب سواری بھاگے تو اسکا مالک کیا کہے؛ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایتِ ابویعلیٰ کو نقل فرمایا۔ (المطالب المنیفہ: ج ۱۴،نمبر ۴۴)۔
امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے یہی روایت ابن السنی اور طبرانی کے حوالے سے عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ نقل فرمائی ہے۔ (الفتح الکبیر: ۱،۸۴)۔
اسی حدیث کو علی بن ابی بکر الھیثمی رحمتہ اللہ علیہ نے عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابویعلیٰ اور طبرانی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ وفیہ معروف بن حسان وھو ضعیف: اس حدیث کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے)۔
امام محی الدین یحییٰ بن شرف نووی رحمتہ اللہ علیہ محدث فرماتے ہیں؛ کہ اس باب میں کہ جب سواری کا جانور چھوٹ جائے تو مالک کیا کہے: بہت سی مشہور احادیث ہیں، ان میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ابن السنی کے حوالہ سے نقل فرمانے کے بعد فرماتے ہیں؛ ہمارے شیوخ میں سے بعض نے مجھ سے بیان کیا جن کا شمار کبار علماٗ میں ہوتا ہے کہ ان کی سواری بدک بھاگی شاید وہ خچر تھی اور وہ اس حدیث کو جانتے تھے تو انہوں نے اس حدیث کے مطابق (یاعباداللہ احبسوا) کہا تو اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو فوراً ان کے لیئے ٹھہرا دیا اور ایک مرتبہ میں بھی ایک جماعت کے ساتھ تھا کہ سواری کا جانور بدک بھاگا اور وہ لوگ اس کے پکڑنے سے عاجز ہوئے تو میں نے یہی یاعباداللہ احبسوا کہا تو وہ سواری کا جانور بغیر کسی اور سبب، صرف اس کلام کے کہنے سے فورا رک گیا۔ (کتاب الاذکار ج ۱، ص ۱۷۷)۔
یعنی یہ وہ حدیث ہے جس سے صاف صاف غیراللہ کی مدد ثابت ہورہی ہے اور یہ نامور صحابہ کی تعلیم ہے اور خود سلف کا عمل ہے لیکن موجودہ دور کا خارجی دیوبندی وہابی فتنہ اسکو ضعیف قرار دے کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر لوگوں کو مذہبی دکانداری سے گمراہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں توسل مدد استمداد حاصل کرنا وہ بھی غیراللہ سے اور اس پر اللہ کا عطا فرمانا اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اگر ہم نے اسکی دیگر طرق بیان کرنی شروع کردیں تو پوری کتاب لکھنی پڑ جائے گی۔ القصہ مختصر کسی محدث کسی صحابی کسی تابعی نے اسکو (کفر شرک بدعت یا غیراللہ سے مدد کا نام) نہیں دیا۔ بلکہ ان کے عمل کے مطابق یہ عین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پاسداری کرنا اور تجربہ کرکے اسکو صحیح ثابت ہونے پرلکھنا بنتا ہے۔ ایک مثال اور دے کر اسکو ختم کرتے ہیں کہ ایسی ہی حدیث جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے اس حدیث کو امام ابوبکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق العتکی البزار نے یوں روایت کیا ہے:حدثنا موسیٰ بن اسحق قال نا منجاب بن الحارث قال نا حاتم بن اسماعیل عن اسامۃ بن زید عن ابان بن صالح عن مجاھد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان للہ ملائکۃ فی الارض سوی الحفظۃ یکتبون ما سقط من ورق الشجرۃ فاذا اصاب احدکم عرجۃ بارض فلاۃ فلیناد اعینوا عباد اللہ۔ڈاکٹر فیض احمد چشتی
ترجمہ؛۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک آقائے دوجہاں علیہ التحیہ والثناء نے فرمایا: اللہ کے کچھ ملائکہ زمین میں محافظوں کے علاوہ ہیں جن کا کام درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھنا ہے چنانچہ جب تم میں سے کسی کو دورانِ سفر بیابان میں کوئی مصیبت آپڑے تو اسے چاہیئے کہ ندا کرے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو
پھر امام بزارفرماتے ہیں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے الفاظ کے ساتھ نہیں جانا مگر اسی طریق اور اسی اسناد کے ساتھ۔ (مسند البزار ج ۱۱، ۱۸۱)۔
امام بیہقی نے اس حدیث کو موقوفا بھی روایت فرمایا ہے بحوالہ شعب الایمان ج ۱، ۱۸۳۔ ایسے ہی مصنف ابن ابی شیبہ کی ج ۶ ، ص ۱۰۳ پر اور التفسیر الکبیر امام رازی نے استناداً بیان فرمایا ج ۲، ص ۱۵۰ پر۔
اور اسناد کے اعتبار سے یہ حدیثِ حسن ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث جسے ابویعلیٰ نے اپنی مسند میں اور ابن السنی نے عمل الیوم واللیلۃ میں اور طبرانی نےا سے اپنی معجم الکبیر میں ذکر کیا ہے اسکی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے اور ابن سنی کی اسناد کے علاوہ میں انقطاع بھی ہے کیونکہ عبداللہ بن بریدہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان انقطاع ہے جو کہ ابن السنی کے اسناد میں اتصال کے ساتھ ہے ۔ یعنی عن ابن بریدۃ عن ابیہ (بریدۃ بن الحصیب) عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ؛ رہا معروف بن حسان کا ضعیف ہونا جیسا کہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کہا ہے اور راوی کے ضعیف ہونے سے حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم تب ہوگا جب کہ اسکے لیئے دیگر شواہد موجود نہ ہوں۔ لیکن اس حدیث کے لیئے دیگر شواھد روایات موجود ہیں جو کہ دیگر صحیح اور حسن اسناد کے ساتھ موجود ہیں۔ یعنی طبرانی کی وہ روایت جوکہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے ہے اگرچہ اس مین انقطاع ہے کیونکہ زید بن علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو نہیں پایا جیسا کہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ذکر کیا لیکن یہ روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے لیئے تقویت کا باعث ہےاور وہ روایت جو کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا اسکے رجال ثقہ ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday, February 5, 2018

مزار اور مندر میں فرق کیجیئے

مزار اور مندر میں فرق کیجیئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک صاحب نے ان بکس میں میسج کر کے پوچھا ، مسلمان کے مزاراور ہندو کے مندر میں کیا فرق ہے ؟

جواب : محترم قارئین ایسی پوسٹیں و کمنٹس کئی جگہ آپ نے بھی پڑھے ہونگے مگر افسوس کہ مسلمان اتنی شناخت بھی کھو چکا ہے، مسلمان کا مزار من اللہ ہے اور ہندو کا مندر من دون اللہ ہے۔ ہندو کا مندر شرک کا گڑھ ہے تو مسلمان کا مزار توحید کا مرکز ہے یہ صاحب مزار ہستیاں اسلام کی بقا اور ایمان کی حفاظت کی ضامن ہیں ، پوری دنیا میں دین کی سچی تبلیغ انہی صاحب مزارہستیوں کے ذریعے جاری و ساری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشادات ان صاحب مزار ہستیوں کو موصول ہوتے ہیں اور یہ صاحب مزار اس علاقے میں موجود ولی اللہ کے توسط سے وہ فیض ، عام لوگوں تک پہنچاتے ہیں دین کی تبلیغ کے مشن میں یہ مزار پوری دنیا میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں،کوئی ولی اللہ، جس کے لئے اللہ چاہے، براہِ راست بھی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایات وصول کرتا ہے۔

جن کی نظروں کے سامنے اندھیرا ہے ان کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ چادریں پیش کی جارہیں ہیں ، پھول پیش ہو رہے ہیں، لنگر تقسیم ہو رہے ہیں، ڈھول بج رہے ہیں، اس سے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا ، حالاں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو شیطان کے قبیلہ کے مقابلہ میں اللہ کا قبیلہ ہیں، جس طرح شیطانی مخلوق کا شیطان سے مضبوط رابطہ ہے اسی طرح ان ہستیوں کا اللہ اور رسول سے مکمل اور مضبوط رابطہ ہے جس طرح شیطانی مخلوق ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتی ہے اسی طرح یہ صاحب مزار دین کی سچی تبلیغ میں مصروف اولیائے کرام کی مکمل پشت پناہی فرماتے ہیں۔

آئیں اب ہم من اللہ اور من دون اللہ کے فرق کو قرآنی آیات سے دیکھتے ہیں۔

من دون اللہ پر شیاطین جن مسلط ہو تے ہیں
وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَاِّءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَھُمْ وَ خَرَقُوْا لَہ‘ بَنِیْنَ وَ بَنٰت ؤِ بِغَیْرِ عِلْمٍ چ سُبْحٰنَہ‘ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ

من اللہ جنوں پر مسلط ہوتے ہیں
وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ

من دون اللہ پکارنے والے کی آواز سے غافل ہوتے ہیں
قُلْ اَرَءَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ط اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ

من اللہ چیونٹی تک کی آواز سن لیتے ہیں
حَتّٰی اِِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یٰٓاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ ڑَلا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُوْدُ ہٗ ڈ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ

ہو سکتا ہے کہ کوئی صاحب یہ سوچیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سننے کا تعلق تو ظاہری زندگی سے تھا، تو عرض ہے کہ من اللہ کی برزخی زندگی ان کی ظاہری زندگی سے شاندار ہوتی ہے۔

سورۃ حم السجدہ میں ارشاد ہوتا ہے۔اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلئکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (۳۰)) نَحْنُ اَوْلِیٍّؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِٹ وَلَکُمْ فِیْہَامَا تَشْتَہِئْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْن (۳۱) نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ ۔
قرآن مجید فرماتا ہے:اہل استقامت کو فرشتے خوش خبری دیتے ہیں،کہ ان کے لئے کوئی خوف اور غم نہیں ہے۔

کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری اولیاء اللہ کو تین طریقے سے ملتی ہے۔

نمبر۱۔ صاحب فضل اہل قبور اسے کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری دیتے ہیں۔جیسا کہ سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر ۱۷۰ میں ہے۔

نمبر۲۔ فرشتے اسے کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری دیتے ہیں جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ہے۔

نمبر۳۔ سوہنارب خود بھی اپنے دوست سے ہم کلام ہوتا ہے جیسا کہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر ۲۷ میں ہے، وہ دوست ہی کیا جو اپنے دوست سے بات نہ کرے دکھ ،سکھ میں اس کے ساتھ نہ ہو۔دوست تو دوست کے راستے کے وہ کانٹے بھی ہٹا دیتا ہے جو اس کے دوست کو نظر نہیں آ رہے ہوتے، سوہنا رب اپنے دوست کی وہ دعائیں بھی پوری فرمادیتا ہے جو اس کے دوست نے مانگی نہیں ہوتیں۔

قرآن مجید فرماتا ہے، ان کی قبروں پر بھی فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔

اولیاء اللہ کی زندگی میں بھی فرشتے ان کے دوست اور ساتھی ہوتے ہیں اور اولیاء اللہ کے مزارات پربھی فرشتوں کا نزول ہوتا ہے،اور جو وہ چاہیں وہ تمنا پوری کرتے ہیں اور یہ غفورالرحیم کی دوست نوازی کاتقاضہ ہے۔

من دون اللہ ، اللہ کی عبادت سے وکتے ہیں اور جہنم کی طرف بلاتے ہیں،شیطان اپنے گروہ کو جہنم کی دعوت دیتا ہے۔
سورۃ فاطر میں ارشاد فرمایا : اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّاچ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْر ۔

من اللہ یا حزب اللہ برائی سے روکتے ہیں اور نیکی کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ کی رحمت کا حقدار بنا دیتے ہیں۔
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ چ اُولئکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ چ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔

من دون اللہ کی دوستی اللہ کی ناراضگی ہے
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہ اَوْلِیَاِّءَ چ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ۔

من اللہ کی دوستی اللہ کی خواہش ہے۔
وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوْلِہٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لِیْجَۃً چ وَ اللّٰہُ خَبِیْرئِ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔

من دون اللہ سے بیزار ہونا صاحبِ ایمان کی فطرت ہے
فَلَمَّا اعْتَزَلَھُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ صلے زعَسٰٓی اَلَّآ اَکُوْنَ بِدُعَاِّءِ رَبِّیْ شَقِیًّا ۔

من اللہ کی دوستی صاحبِ ایمان کی فطرت ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔(اللہ تعالیٰ سمجھ عطاء فرمائے آمین ۔ طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

💥 ناصر رام پوری 💥

💥 ناصر رام پوری  💥

ناصر رام پوری صاحب کچھ عرصے سے فیس بک پر مسئلہ تکفیر وحسام الحرمین پہ کلام کررہے ہیں -
جب انھوں نے ابتدا کی تھی تو ہم نے انھیں مہذب انداز میں دعوت مکالمہ پیش کی ، جو انھوں نے قبول نہیں کی -
مسلک کا درد رکھنے والے کئی احباب نے مصلحانہ مشورے دیے کہ یہ باتیں مل بیٹھ کر کرنے والی ہوتی ہیں ، اس طرح نہ کریں لیکن یہ باز نہیں آئے -

ان کا شروع دن سے یہی اصرار رہا ہے کہ جوکچھ لکھنا اور کہنا ہے بس فیس بک پر ہی لکھا اور کہا جائے  -

"  ہم ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری کرنے کو بھی تیار ہیں ! "

انھوں نے اب تک جتنے اعتراضات کیے ، ہم ان کے فیس بک پر جوابات عرض کرتے ہیں -
ہمارے جج علما و عوام اہل سنت ہیں ، وہ جو فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہوگا !

بس یہ چند باتیں قبول کرلیں :

1: میں نے ناصر صاحب کے جملہ اعتراضات کے فرداً فرداً جوابات دینے ہیں -
جب میں اعتراض کا جواب دوں گا تواس جواب پر ناصر صاحب کو مزید علمی اعتراض کا حق ہوگا ؛ جب تک ایک اعتراض پر گفتگو مکمل نہیں ہوجائے گی آگے نہیں بڑھیں گے -
اگر ناصرصاحب میرے جواب پر یا میں ناصرصاحب کے جواب پر ردنہیں کرتا تواس کا مطلب اتفاق ہوگا -

2: ایسے نہیں ہوگا کہ ناصر صاحب اپنی سناتے جائیں اور میں اپنی ؛  ہمیں ایک دوسرے کی بات کا یاتو اقرار کرنا ہوگا یا دلائل سے انکار -

3: اِنھوں نے اپنی بعض پوسٹوں میں جو جھوٹی اورخلاف واقعہ باتیں لکھی ہیں ، میں نے عوام اہل سنت کی عدالت میں اُن پرسوالات اٹھانے ہیں ، جن کی وضاحت ناصر صاحب پر لازم ہوگی ؛ یا تو یہ دلائل صحیحہ سے اپنی بات کوسچ ثابت کریں گے یاسچے دل سے توبہ کریں گے -
اسی طرح اگرمیری کسی بات کو خلاف واقعہ ثابت کرتے ہیں تو میں بھی علانیہ توبہ کروں گا -

4: ہماری گفتگو مہذب اور علمی ہونے کےساتھ مجادلانہ نہیں ، برادرانہ ہوگی اور اس میں خلط مبحث  نہیں ہوگا -

احباب اہل سنت ! ناصرصاحب کو اس طرح بات کرنے پر ہی راضی کرلیں -

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت ( قسط 2)

(فتنہ پروروں پر ایک نظر)
قسط اول

نوشاد و ناصر اور ذیشان صاحبان کی سراوی صوفیت بمعنی گمراہیت گیری کا تماشہ دیکھئے اور سرکوبی کیجئے مطلب مذمت کیجئے ۔ گاہ بگاہ صوفیت کے جھوٹے مدعی اور کسی کو کچھ نہ کہنے کا دعوی کرنے والوں کا مکروہ و منحوس چہرہ دیکھئے ۔ مفتی ذوالفقار صاحب کی شان میں کہتے ہیں ۔ مفت کے مفتی ۔ خیر سے مفتی ۔ پیٹ پالو اس کے علاوہ بھی جملے ہیں ۔ تاج الشریعہ کی شان میں ناگفتہ بہ کلمات ۔ فاضل بریلوی کی شان میں اقوال قبیحہ کا اطلاق مثلا متکبرانہ ذہنیت ۔ خطاکار ۔ فرقہ باز ۔ تکفیری ۔ گھمنڈی علاوہ علاوہ ۔ اکابرین اہلسنت تمام کے تمام کو جاھل ۔ اندھی عقیدت کا حامل ۔فتوی باز ۔ فرقہ ساز ۔ یہ سب مفہوم ان لوگوں کی تحریر ات سے مستفاد ھے اس کے پیچھے ان حضرات کا مقصد کیا تو سنئے وہ لوگ اپنے باپ پادری پاکستانی کے مشن کو عام و تام کرنے کے درپے ہیں وجہ یہ ھے کہ یہ لوگ اس کے زر خرید غلام ہیں ۔ ان کا مقصد فاضل بریلوی وعلماء اہلسنت کے اثرات فاضلانہ و محققانہ و مدبرانہ و مفکرانہ کا اثر ختم کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ھے ۔دوم ان جاھل ۔ گمراہ و گمراہ گر باپ ابو میاں ہیں جن کے گمراہ کن صوفیت کی اشاعت و ترویج ھے ۔ خیر ۔ سرے دست اس کا جواب ھے جوان لوگوں نے مفتی ذوالفقار صاحب نعیمی کی شان  میں نازیبا کلمات بکےہیں  اس تعلق سےبس  اتناہی کہنا ھے کہ وہ آج بھی وہیں ہیں جہاں تھے ان خصائل سے متصفین کو  نحو کی زبان میں مبنی کہا جاتا ھے ۔ جو ہرحال میں اپنے نصب العین پر برقرار رہتا ھے ۔ مفتی ذوالفقار صاحب نعیمی اس پر برقرار ہیں اور ان شا ء اللہ برقرار رہیں گے ۔ مگر نوشاد ۔ ناصر اور ذیشان صاحبان اپنی حالت دیکھیں  تم لوگوں میں تغیر و تبدل کی حالت کچھ زیادہ ہی پائ جاتی ھے اس صفت سے متصف افراد کو نحو کی زبان میں معرب سے تعبیر کیاجاتا ہے جیسا عامل آتا ھے وہ جس طرح کا عمل کرنا چاہتا ھے معمول اس کو قبول کرلیتا ھے اس طرح اس کی حرکت بدلتی رہتی ھے ۔ معرب اسی کا نام ھے جو عوامل کے اختلاف سے مختلف ھو ۔ تھوڑا اس جانب سے رخ ہٹادیں تو کہنا بالکل صحیح ھوگا یہ ایک غیر معیاری آدمی کی خصلت ھوتی ھے جو تم لوگوں میں بدرجئہ اتم موجود ھے ۔ کل تک رضا رضا کرتے رہے ۔ چونکہ علم لینا تھا ۔ زبان لینی تھی جب لے چکے تو گم گشتئہ راہ کو اپنا سب کچھ سونپ دیا اب اس نے جیسا عمل کرنا چاہا کیا اس کے بعد وہابیہ ۔ دیابنہ عامل کی شکل میں آگیا ھےتم نے اس کو بھی قبول کرلیا ھے اب جیسا اس کا اثر ہورہا ھے وہی رنگ تم میں جھلک رہا ھے بات صاف ھے کہ تم مفتی ذوالفقار صاحب نعیمی کی نہیں اپنی خصلت بیان کررہے ھو ۔ پیٹ پالو تو تم ہو ۔ مگر الزام دوسروں کے سر رکھ رہے ھو ۔ حیرت ھے۔ اس آئینہ میں دیکھ لو تمہیں مفتی ذوالفقار صاحب نعیمی کے چہرہ میں اپنا ہی چہرہ دکھائ دیگا ۔  تم ہمیشہ دلیل دلیل کی رٹ لگاتے ہو مگر تمہارامضمون مکمل دلیل سے خالی ھوتا ھے ۔ تم نے سوائے لن ترانی و الزام تراشی کے کبھی کچھ لکھا ھے۔ جواب فقط نفی میں ھوگا ۔ سنجیدہ اور مہذب کلام کا بھی رٹ لگاتے ھو ۔ پیٹ پالو کا لفظ استعمال کرنا تمہارےیہاں مہذب ھے ۔ خیر سے مفتی کے لفظ کا استعمال کرناتمہارے نزدیک مہذب ھے ۔ فلاں فلاں کو کافر کہدیا کی جھوٹی روایات بیان کرنا تمہارے قبیلہ کے اصول کے مطابق مہذب اور استدلالی ھے ۔ کوئ دفاعی جواب دے تو اس کو بلاک کردینا تمہاری تہذیب ھے ۔ رضاخانی کہہ کر مخاطب کرنا ۔ گالی نہیں تمہاری تہذیب ھے ۔ مذکورہ کلمات گالی نہیں بلکہ تمہاراادب ھے ۔ مسلک اعلی حضرت کے اطلاق پر انگشت نمائی کرنے  سے پہلے ماتریدیہ ۔ اشاعرہ ۔ حسینی ۔ جواز المسح علی الخفین ۔ اس سے قبل تفضیل الشیخین ۔ حب الختنین ۔ اس سے قبل ما انا علیہ و اصحابی ۔ تمسکو ا بسنتی و سنتہ الخلفا ء ۔ پھر مسلک اہلسنت ۔ قادری ۔ چشتی ۔ نقش بندی ۔ سہر وردی ۔ حنفی ۔ مالکی ۔ شافعی اور حنبلی ان سب علامات کو ھٹالو اس کے بعدبات کرنا مسلک اعلی حضرت کی ۔ یہ دلائل نظر نہیں آتے ذرا عصبیت کی عینک اتار کراس کو دیکھو ۔ اس کے بعد مسلک اعلی حضرت کی بات کرنا۔ تم نے یہ سمجھ رکھا کہ فیس بک ٹوئٹر پر جھوٹی باتوں کا انتساب کرکے پھیلا دیں گے تو تمہاری ناری انا کو تسکین ملجائے گا اور حقانیت معتوب ھو جائے گی تیرے جیسے پہلے بھی آئے اور نا شا ئستہ حرکت کرکے سوئے عدم سدھار گئے اور تیرا وقت بھی قریب آچکا ھے جب جباری و قہاری سوط کی مارپڑنے لگتی ھے تو اچھے اچھوں کی بولتی بند ہوجاتی ھے۔ رہی تیرے ٹوئیر پر پھیلائ ھوئ گندگی کا تو سن لے بریلی کی صحت پر اسں کا کوئ اثر پڑنے والا نہیں ھے    لوگ تیرے مضمون کو پڑھ کر تجھے تھوک رھے ھیں کیونکہ تیری حقیقت ہی کیا ھے وہ لوگ اسلاف کو دیکھ رھے ہیں ۔ ان کی پاکیزہ اور حقانیت و صداقت سے مملو عبارت کو سرمئہ نظر بنا چکے ہیں اور بزبان حال یہی کہہ رھے ھیں ۔ یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے۔
Mufti maqsod
جاری ہے
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت ( قسط 2)

غلام مصطفیٰ نعیمی gmnaimi@gmail.com
(مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی)

سراوی خانقاہ کے زیر سایہ اہل سنت مخالف نظریات پر کام کرنے والی ٹیم کے ایک اہم رکن رامپور کے ایک نیم مولوی نیم صوفی بھی ہیں. آنجناب عرصہ دراز سے اہل سنت کے معتقدات ونظریات پر مختلف حیلوں سے اعتراض کر رہے ہیں...
خود ہی فیس بک پر اعتراض کرنا اور خود ہی اس سے نتیجہ نکال کر اکابر پر طنز کرنا موصوف کا محبوب مشغلہ ہے-
حق پسندی اور عدل وانصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ جن قدآور اساتذہ کی بارگاہ سے لکھنے ، پڑھنے کا شعور حاصل کیا انھیں کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے اعتراضات پیش کرتے اور ان کے علم وعرفان کی روشنی میں شکوک و شبہات کا ازالہ کرتے. لیکن برا ہو احساس برتری کے خمار کا, آنجناب اپنے اساتذہ کی بارگاہ میں حاضر کیا ہوتے؟ الٹے انہیں کے علم وعقل پر معترض بن بیٹھے اور لگے انہیں چیلنج کرنے!!
شاید ایسے ہی ناخلف شاگردوں کو دیکھ کر کسی استاذ نے کہا تھا :
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
جب   بولنے   لگے   تو ہمیں   پر  برس   پڑے
اگر "مصلح" صاحب کی نگاہ کوتاہ میں ان کے اساتذہ تشفی نہیں کرا سکتے تھے تو اپنے اعتراضات کو تحریری شکل میں ملک کے دیگر اکابر اہل علم کی بارگاہوں میں پیش کرتے لیکن! جب مقصود ہی فساد وانتشار تھا تو یہ ساری زحمت کیوں اٹھاتے؟ اس لیے فیس بک پر ہی شرار بولہبی کا حصہ بن گئے....
اس سے پہلے کہ موصوف کے اعتراضات کی جانب رخ کریں پہلے معترض کے فکری خدوخال اور ذہنی کیفیت پر نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ معترض کے اعتراضات کس معیار کے ہیں....ہم ہرگز ذاتیات پر نقد پسند نہیں کرتے لیکن ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ "انسان کے کام اس کی عادت واطوار کا پتا دیتے ہیں اور کسی بھی انسان کو سمجھنے کے لئے اس کی حرکتوں کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے".اب ایک سرسری نظر رامپوری صاحب کی "حرکتوں" پر ڈال لیں...
⚫️ رامپوری صوفی جی کے ہم سبق ساتھیوں نے بتایا کہ جناب پڑھتے کم تھے اساتذہ کے طریقہ تدریس پر منفی تبصرہ زیادہ کرتے تھے اور باقی وقت میں طلبہ کی جانب سے نکلنے والے جداریوں پر انگشت نمائی کرنا, خامیاں تلاشنا اور اساتذہ کی کمیاں گنانا محبوب مشغلہ تھا.فراغت تک موصوف اسی "کار بزرگ" میں مصروف رہے.
⚫️ رامپور میں کچھ فرضی مزارات کے مسئلے پر مفتی سید شاہد علی رضوی کے خلاف ہی پوسٹر وپمفلٹ بازی کی..سوشل میڈیا پر جھوٹی باتیں پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا. حالانکہ یہ قضیہ قاضی شرع کی حکمت وفعالیت سے ہی حل ہوا.
⚫️ صوفی کانفرنس کے روح رواں سید اشرف میاں کچھوچھوی اور ان کے علما ومشائخ بورڈ کو ہندؤں کا آلہ کار, حکومت کا پِچھ لگّو اور آر ایس ایس کا چمچہ قرار دیا.
⚫️ نوشاد عالم چشتی صاحب کے مجوزہ "انسانیت سیمینار" کو لیکر منتظیمن پر آر ایس ایس سے سازباز کرنے اور ملت فروشی کا الزام لگایا جس پر نوشاد چشتی صاحب نے رامپوری صاحب کو "چھلنی بھی بولی" کہہ کر تمسخر اڑایا..
⚫️ سادات کرام کو "نسلی برتری کا فرعون" قرار دیا....
⚫️ اپنے مادر علمی جامعہ اشرفیہ کے سند ودستار سے متعلق قانون کو لیکر اساتذہ اشرفیہ کو "جاہل,غالی مقلد اور فتنہ پرور قرار دیا...
⚫️ تحفظ ختم نبوت پر احتجاج کر رہے کنزالعلما ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب پر بڑا گھٹیا اور بازاری تبصرہ کیا..
⚫️ علامہ خادم حسین رضوی کے ختم نبوت کے مجرموں کے خلاف دھرنے کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹیں لکھیں..
⚫️ اعلی حضرت اور دیگر اکابرین اہل سنت پر "جہالت, متکبر, گھمنڈی اور اندھ بھکت" جیسے پھوہڑ اور بھدّے جملے لکھ اپنی خاندانی تربیت کا پتا بتایا.
قارئین باتمکین!!
یہ سب مشتے نمونہ از خروارے ہے. اگر آنجناب کے اعتراضات وہفوات کا بالتفصیل جائزہ لیا جائے تو ممکن ہے خود کے والدین پر بھی اعتراض مل جائے... اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ناقدِ حسام الحرمین کی طبیعت اور مزاج کس خمیر سے تیار ہوا ہے. جو انسان کھلے بندوں اعلی حضرت,اکابرین اہل سنت, بزرگان دین پر رکیک اور بھدّے جملے کستا ہو اور سمجھانے پر کہتا ہو"شخصیت کو ماننا ایمان کا حصہ نہیں ہے" ایسے انسان کو اپنے انجام سے ڈرنا چاہیے کہ خصوص کا انکار نصوص کے انکار پر منتج ہوتا ہے...
بزرگوں کی بے ادبی اور توہین کے متعلق اعلی حضرت تحریر فرماتے ہیں :
واللہ! ان(اہل اللہ) کے مخالف سے اللہ عزوجل نے لڑائی کا اعلان فرمایا ہے.خصوص کا انکار نصوص کے انکار کی طرف لے جاتا ہے.

شاخ پر بیٹھ کر جڑ کاٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرہ تیرا"

(جاری)