Friday, January 26, 2018

عالم دین افضل ہے یا غیر عالم سادات کرام

منقول :از شمسی رضوی صاحب.

شوشل میڈیا پر ایک سوال گردش کررہا ہے کہ،،  عالم دین افضل ہے یا سادات کرام،،
✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺✺
ویسےتولوگ اپنےاپنےذوق کےمطابق جواب دیتے ہیں مگر شریعت مطہرہ کا جواب کیا ہے ملاحظہ فرمائیں
شرافت علمی اور حسبی کو علماء نے شرافت نسبی سے فوق قرار دیا ہے یعنی عالم غیرسید بلکہ غیر قرشی، سیدجاہل سے اشرف وافضل اسی پر قرآن مجید واحادیث طیبہ دال ہیں

قال اللہ تعالی یرفع اللہ الذین امنو منکم والذین اوتو العلم درجات

(سورہ المجادلہ:۱۱)

وقال عز وجل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون

(سورہ الزمر:۹)

وقال عز شانہ انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم

(سورہ الحجرات:۳۱)

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم

فضل العالم علی العابد کفضلی علی أدناکم

(المعجم الکبیر:۱۱۹۷)

وقال علیہ الصلوۃ والسلام

الْعُلَمَاء ُ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَاء ِ

(شعب الایمان:۹۹۶۱)

وقال علیہ السلام

من ابطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ۔

(مستدرک علی الصحیحین:۹۹۲۔المعجم الاوسط:۰۸۷۳)

اگر شرف نسب حسب علم سے بڑھ کر ہوتا تو حسنین کریمین صلوات اللہ علی جدھما وعلیھما خلفاء اربعہ سے افضل ہوتے یونہی بعد کے سادات کرام صحابہ کرام سے افضل ہوتے۔علماء فرماتے ہیں کہ سید جاہل عالم عجمی آگے نہ چلے کہ عالم اس سے اشرف ہے۔

فتاوی خیریہ میں ہے

اذا کتب العلم طافحۃ بتقدم العالم علی القرشی ولم یفرق سبحانہ وتعالی بین القرشی وغیرہ فی قولہ تعالی ہل یستوی یعلمون والذین لا یعلمون وقد صرحوا بان حق العالم علی الجاہل کحق الاستاذ علی التلمیذ۔

(ج۲ص۲۶۳)

اسی میں ہے

قال الزندوسی حق العالم علی الجاہل وحق الاستاذ علی التلمیذ واحد علی السواء وھو ان لا یفتح الکلام قبلہ ولا یجلس مکانہ وان غابلایرد علیہ کلامہ لا یتقدم علیہ فی مشیہ۔

در مختار میں ہے

لان شرف العلم فوق شرف النسب والمال، کما جزم بہ البزازی وارتضاہ الکمال وغیرہ، والوجہ فیہ ظاہر ولذا قیل: إن عائشۃ أفضل من فاطمۃ رضی اللہ عنہما.

(ص۴۴۴)

ردالمحتارمیں ہے

وذکر الخیر الرملی عن مجمع الفتاوی: العالم یکون کفؤا للعلویۃ لان شرف الحسب أقوی من شرف النسب، وعن ہذا قیل: إن عائشۃ أفضل من فاطمۃ، لان لعائشۃ شرف العلم، کذا فی المحیط. وذکر أیضا أنہ جزم بہ فی المحیط والبزازیۃ والفیض وجامع الفتاوی وصاحب الدرر،

(ج۲ص۴۴۴)۔
شرافت وفضیلت وعدم شرافت وفضیلت کا مدار وصف کے ممکن الانفکاک ومستحیل الانفکاک ہونے پر نہیں ورنہ کئی قباحتیں لازم آئیں گی مثلا یہ کہ شرف نسب ایمان سے بڑھ جاے کہ بقول سائل کہ نسب دائم البقاء ومستحیل الانفکاک ہے اور ایمان ممکن الانفکاک ہے کیونکہ ایمان تصدیق مخصوص کا نام ہے اور تصدیق علم ہے اور سائل کو مسلم ہے کہ علم ممکن الانب نجات کیلئے کافیفکاک ہے تو نسب ایمان سے افضل ہوگیا حالانکہ یہ باطل محض ہے۔ اور نہ جہان میں اس کا کوئی قائل کہ محض ایمان بلا عمل وفضلِ نسب نجات کیلئے کافی اور محض نسب بلاایمان قطعا ناکافی۔یونہی لازم آئیگا کہ سیادت صحابیت سے اشرف ہوجائے کہ اول مستحیل الانفکاک وثانی ممکن الانفکاک ہے بصورت ارتداد تو ہر سید ہر صحابی سے افضل واشرف ہو جائے گا۔ اگر سائل کی بات تسلیم بھی کر لی جائے جب بھی مدعی ثابت نہیں ہو سکتا کہ عرض کیاجا چکا ہے کہ شرف نسب بھی ممکن الانفکاک ہے اور علم بھی ممکن الانفکاک تو شرفِ نسب شرفِ علم سے فوق کیسے ہوا۔واللہ تعالی اعلم بالصواب
ایسے آقاوں کا  بندہ ہے رضا
بول بالے  میری سرکاروں کے
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
بچہ بچہ نور کا
اوپر نقل کی گئی باتیں حق ہیں

No comments:

Post a Comment