مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ:
خلافت راشدہ عادلہ کے بعد مسلمانوں پر دنیا کی محبت غالب آگئی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں راسخ نہ رہی، دنیا کی محبت کی وجہ سے موت سے ان کے دلوں میں کراہت پیدا ہوگئی اور اللہ کی راہ میں جان دینے کا جذبہ کامل نہ رہا، جس کی وجہ سے امت مسلمہ بدحالی کا شکار ہوگئی، غیروں پر اس کو غالب رہنے کی نعمت سے محروم کردیا گیا۔
سننِ ابی داؤد اور بیہقی کی حدیث میں امت مسلمہ کی اس بدحالی کا ذکر نہایت ہی المناک صورت میں وارد ہے حضرت ثوبان سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے مسلمانو! قریب ہے کہ کافروں کی جماعتیں تم پر حملہ آور ہونے کے لیے اس طرح ایک دوسرے کو بلائیں گی جیسے کسی پیالے میں کھانا رکھا ہو اور اسے کھانے کے لیے ہر طرف سے لوگوں کو بلایا جائے، صحابہ نے عرض کیا کہ حضور! کیا اس وقت ہم قلیل ہوں گے؟ فرمایا: نہیں، تم اس وقت بہت کثیر تعداد میں ہو گے لیکن تم اس وقت سیلاب کے جھاگ اور اس کے خس و خاشاک کی طرح ہوگے (یعنی ایمانی قوت و شجاعت تم میں باقی نہ رہے گی) اللہ تعالیٰ تمہاری ہیبت اور تمہارا رعب دشمن کے دل سے نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں بزدلی اور کمزوری پیدا کردے گا صحابہ کرام نے عرض کیا، حضور بزدلی اور کمزوری کا سبب کیا ہوگا؟ فرمایا: ’’حب الدنیا وکراھۃ الموت‘‘ دنیا کی محبت اور موت کی کراہت۔
ظاہر ہے کہ جو شخص دنیا سے محبت کرے گا موت اسے ناپسند ہوگی، عرصہ دراز سے مسلمان اسی بدحالی میں مبتلا ہیں اور موجودہ دور میں یہ بدحالی ایسی خوفناک صورت اختیار کرگئی ہے کہ اس کے نتائج کے تصور سے بھی دل لرز جاتا ہے۔
خیال رہے کہ ہر دور میں نیک لوگ، اصحابِ علم و تقویٰ رہے ہیں، انہی کے دم قدم سے نظامِ دنیا چل رہا ہے اور دنیا کی بقا ہے۔ لیکن اکثریت جب گناہوں میں مبتلا ہوجاتی ہے تو کم تعداد میں نیک لوگ بھی ہلاکت کی زد میں آجاتے ہیں، اگرچہ وہ ہلاکت ان کے لیے عذاب نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے:
’’اذا انزل اللہ بقوم عذابا اصاب العذاب من کان فیھم ثم بعثوا علی اعمالھم‘‘ (بخاری ج۲ ص۱۰۵۳)
یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب بھیجتا ہے تو نیک و بد سبھی اس میں ہلاک ہو جاتے ہیں پھر جب وہ اُٹھائے جائیں گے تو ہر ایک کا اٹھایا جانا اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق ہوگا۔
مسلمان اگر اپنی عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی تمنا یہ ہے کہ وہ کافروں پر غالب آجائیں تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ تمام مسلمان مجموعی طور پر کامل ایمان رکھیں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر کسی اور چیز کو ترجیح نہ دیں، اسی محبت اور کامل ایمان کی وجہ سے جذبہ جہاد اور شوق شہادت پیدا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اپنی اس عظمتِ دورِ رفتہ کو حاصل نہ کرلیں جو صحابہ کرام کے دور میں کفار پر مسلمانوں کو حاصل تھی کہ مسلمانوں کی ہیبت سے کفار کے اعضاء پر کپکپی طاری ہوتی ۔ (از تبیان)
No comments:
Post a Comment